خزائن القرآن |
|
اللہ فرماتے کہ تم اپنی عبادات کی طرف نسبت کرو کہ تم نے یہ کیا تو میں نے یہ دیا لیکن یہاں میں نے تم نے کچھ نہیں ہے فَمِنَ اللہِ سب اللہ کی عطا ہے اور جب کوئی تم کو برائی پہنچے، نقصان پہنچے تو وہ تمہارے نفس کی شرارت کی سزا ہے۔حُسنِ اتفاق و سوئے اتفاق کفار و ملحدوں کی ایجاد نیکیوں کو حسنِ اتفاق مت کہو اور برائیوں کو سوئے اتفاق مت کہو۔ یہ الفاظ نیچریوں نے، کافروں نے، ملحدوں نے جاری کیے ہیں۔ کہ اگر کوئی نعمت ملی تو کہہ دیا کہ صاحب! آج حسنِ اتفاق سے مجھے نوکری مل گئی۔ اللہ کا نام بھی نہیںلیا کہ اللہ کے کرم سے مجھے یہ نوکری ملی۔ نیکیوں کو حسنِ اتفاق نے لوٹ لیا اور برائیوں کو سوئے اتفاق نے لوٹ لیا کہ سوئے اتفاق سے آ ج گر گئے ، چوٹ لگ گئی، ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ یہ نہیں کہا کہ یہ میری شامتِ اعمال اور نالائقی کی سزا تھی۔جزاء بھی دراصل عطا ہے میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری فرماتے تھے کہ جنّت بھی جو اللہ تعالیٰ دیں گے وہ ہمارے عمل کا بدلہ نہ ہو گا وہ بھی اللہ تعالیٰ کی عطا ہو گی اور دلیل بھی میرے شیخ نے قرآن پاک سے کیسی پیش کی کہ آپ کو مزہ آجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم کو جنّت دوں گا تو جَزَآءً مِّنۡ رَّبِّکَ یہ میری طرف سے بدلہ ہو گا لیکن یہ بدلہ تمہارے عمل کا نہیں ہو گایہ بھی میری عطا ہو گیجَزَآءً مِّنۡ رَّبِّکَکے بعد عَطَآءً حِسَابًا؎ نازل کر دیا کہ یہ جزاء بھی دراصل میری عطا ہے، بخشش ہے۔جنّت کو جزائے عمل فرمانا بھی رحمت ہے اور اس کی عجیب مثال میرے شیخ فرماتے تھے کہ آخرت میں نیک عمل کا بدلہ جو ملے گا، جنّت ملے گی یہ بھی حقیقت میں ان کی عطا ہے لیکن جزاء کیوں فرمایا؟ یہ مالک تعالیٰ شانہ کی غایتِ کرم اور زبردست مہربانی ہے۔ جیسے کسی بچے کے ہاتھ کو باپ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر کوئی خط لکھوا دے اور بیٹے سے کہے کہ واہ بیٹے! تم نے بڑا اچھا خط لکھا حالاں کہ وہ تو بابا نے خود لکھوایا ہے لیکن بچے کی طرف نسبت کر رہا ہے، شاباشی دے رہا ہے کہ شاباش بیٹا! تم نے بڑا ------------------------------