خزائن القرآن |
|
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ یعنی اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور (عمل میں) سچوں کے ساتھ رہو۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ ایسے صادقین کو پیدا فرماتے رہیں گے، وگرنہ اللہ تعالیٰ کا بندے سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ جس کا وجود اس کے کارخانۂ قدرت میں نہ ہو ’’تَکلِیف مَا لَا یُطاَق‘‘ ہے جس سے اس کی ذات بَری ہے جس کی شہادت یہ آیتِ کریمہ دے رہی ہے: لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا؎ اللہ تعالیٰ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ معلوم ہوا کہ ہر دور اور ہر عہد میں باصدق و با صفا مشایخ کا ہونا لازمی ہے تاکہ لوگوں کو ان کی صحبت و معیت کا شرف حاصل ہوتا رہے جس سے اللہ کی یاد آئے، دنیا کی محبت کم ہو اور آخرت کی فکر بڑھے۔ کوئی ان مشایخ اور بزرگوں کو نہ جانے اور نہ پہچانے تو یہ اس کی کورنگاہی ہے اور طبیعت کی سہل انگاری کا کرشمہ ہے، اس میں قانونِ قدرت کا کوئی قصور نہیں۔ دیکھیے! آج کوئی مریض ہوتا ہے تو وہ کسی ڈاکٹر اور حکیم کے پاس علاج کے لیے ضرور جاتا ہے، ایسے مریض کے لیے کبھی یہ کہتے ہوئے نہیں سنا گیا کہ آج کل کے ڈاکٹر اور حکیم اچھے نہیں ہیں۔ اس لیے مجھے اپنی حالت میں رہنے دو، میں علاج نہیں کراتا، ہاں حکیم اجمل خاں اپنی قبر سے باہر آئیں گے تو ان سے میں علاج کراؤں گا۔ تو جب لوگ اپنے امراضِ جسمانی میں اسی زمانے کے حکمائے جسمانی کی طرف رجوع ہوتے ہیں اور شفا پاتے ہیں تو کیا اپنے امراضِ روحانی میں اس دور کے حکمائے روحانی سے ربط و تعلق پیدا کر کے ان امراض سے نجات نہیں پائیں گے؟ یقیناً پائیں گے اگر لوگوں کے اندر اس کی فکر ہو اور مرض کا احساس ہو اور یہ خیال ہو کہ روح کی بیماری جسم کی بیماری سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوستی کی پیشکش اس آیت کا عاشقانہ ترجمہ میں یہ کرتا ہوں کہ اے ایمان والو! میرے دوست بن جاؤ۔ میں تمہاری غلامی کے سر پر اپنی دوستی کا تاج رکھنا چاہتا ہوں۔ اس لیے تقویٰ فرض کرتا ہوں اور ولی اللہ بننا، میرا دوست بننا یہ تمہارا اختیاری مضمون نہیں ہے، لازمی مضمون ہے۔ بتاؤ تقویٰ فرض کرناکیا اللہ تعالیٰ کا کرم نہیں ہے اور تقویٰ ہی اللہ کی دوستی کی بنیاد ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ اللہ کے ------------------------------