خزائن القرآن |
|
محجوب اور محروم کر تے ہیں اور اگر کوئی حاکم یہ اعلان کرے بھی تو مجرمین کہیں گے کہ تیری صورت پر جھاڑو پھرے تو ہماری جان بخش دے اور حق تعالیٰ شانہٗ کفارسے فرمائیں گے کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ ہم تمہیں اپنی رؤیت سے مشرف کریں اور کس انداز سے فرمائیں گےکَلَّا ہر گز نہیں اور صفتِ ربوبیت بیان فرمائی جو علت محبوبیت ہے یعنی پالنے والا محبوب ہوتا ہے اور محبوب کے دیدار سے محرومی کتنی بڑی محرومی ہے جو کفار کے لیے باعثِ حسرت ہوگی۔ ذٰلِکَ مِمَّا خَصَّنِیَ اللہُ تعَالٰی شَانُہٗ بِلُطْفِہٖآیت نمبر۴۵ قَالَ رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ؎ ترجمہ: یوسف (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے رب! جس (واہیات) کام کی طرف یہ عورتیں مجھ کو بلا رہی ہیں اس سے تو جیل خانہ میں جانا ہی مجھ کو زیادہ پسند ہے۔اللہ کے راستے کا غم اللہ کا پیار ہے مرنے والی لاشوں کو مت دیکھو، نہ دیکھنے کا غم اُٹھاؤ، غم سے کیوں بھاگتے ہو؟ اس غم کو پیار کرو کیوں کہ خداکے راستے کا غم ہے۔ اس غم کو اللہ پیار کرتا ہے جس غم کو اللہ پیار کرے وہ غم پیارا نہیں ہے؟ یہ غم نہیں یہ اللہ کے راستے کا پیار ہے۔ جب اللہ خوش ہوتا ہے تو حلاوتِ ایمانی دیتا ہے لہٰذا اس غم پر شکر ادا کرو۔ جب چپکے چپکے نظربچا لو تو کہو کہ اے اللہ! آپ کا احسان ہے کہ آپ نے اپنے راستے کا غم عطا فرمایا۔ آپ کی راہ کا ایک کانٹا سارے عالم کے پھولوں سے بہتر ہے اور آپ کے راستے کا غم سارے عالم کی خوشیوں سے بہتر ہے، اللہ کے راستے میں اگر ایک کانٹا چبھ جائے تو ساری دنیا کے پھول اگر اس کانٹے کو سلامِ احترامی اور گارڈ آف آنر پیش کریں تو اس کانٹے کی عظمت کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ اگر اللہ کے راستے میں نظر بچانے میں، گناہ سے بچنے میں ایک ذرّہ غم دل میں آ جائے تو یہ اتنا مبارک غم ہے کہ ساری دنیا کی خوشیاں اگر اس غم کو سلام کریں تو اس غم کی عظمت کا حق ادا نہیں ہو سکتا کیوں کہ یہ اللہ کے راستے کا غم ہے۔ اسی لیے جانِ یوسف علیہ ------------------------------