خزائن القرآن |
|
وَ زُلۡزِلُوۡا زِلۡزَالًا شَدِیۡدًا ؎ اور سخت زلزلے میں ڈالے گئے ان کو ہلا دیا گیالیکن پھر بھی وہ حَسۡبُنَا اللہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ کہتے تھے کہ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے ۔ غرض وہ خوف میں مبتلا کیے گئے۔اولیاء اللہ پر مصائب کی وجہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو اپنا مقبول بناتا ہے، بڑے درجہ کی عزت دیتا ہے تو اس کو ذرا خوف سے بھی گزارا جاتا ہے تاکہ اس کا دل مضبوط ہو جائے اور اتنا غم پہنچایا جائے کہ جب اس کو ساری دنیا میں عزت اور خوشی ملے تو اس کے سابقہ غم تکبر سے اس کی محافظت کریں۔ اس کی عبدیت کا زاویہ قائمہ ۹۰ڈگری قائم رہے۔ ایسا نہ ہو کہ چاروں طرف سے واہ واہ ہو تو اس کی آہ ختم ہو جائے۔ جس متبعِ سنّت بندے کو اللہ تعالیٰ بڑا رتبہ دینا چاہتے ہیں اس کو اتنا غم دیتے ہیں کہ اس کی آہ نہ باہ سے ضایع ہوتی ہے نہ جاہ سے ضایع ہوتی ہے اور نہ واہ واہ سے ضایع ہوتی ہے۔ سارا عالم اس کی تعریف کرے لیکن اس کی بندگی اور اس کی عاجزی، اس کی آہ و زاری، اس کی اشکباری ہمیشہ قائم اور تابندہ درخشندہ اور پایندہ رہتی ہے۔ اس لیے غم سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ ایسے حالات سے اللہ تعالی گزار دیتا ہے دیکھ لو صحابہ کو خطاب ہو رہا ہے وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ اور جنگِ بدر وغیرہ میں کیسے کیسے مصائب سے گزرے لیکن انبیاء کو جو مصائب دیے جاتے ہیں وہ ان کی بلندئ درجات کے لیے ہوتے ہیں۔ انبیاء کو عجب و کبر سے حفاظت کے لیے نہیں دیے جاتے کیوں کہ نبی معصوم ہوتا ہے۔ اخلاقِ رذیلہ اس کے اندر پید اہی نہیں ہو سکتے اس لیے انبیاء کے مصائب ان کی رفعتِ شان اور بلندئ درجات کے لیے ہوتے ہیں لیکن اولیاء اللہ کو خوف اور مصیبت جو پیش آتی ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ عجب و کبر سے ان کی حفاظت رہے۔امتحان کا دوسرا پرچہ اور خوف کے بعد دوسرے امتحان سے آگاہ فرما رہے ہیں۔ وَ الۡجُوۡعِ تمہارے امتحان کا دوسرا پرچہ بھوک ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں کہ یہاں بھوک سے مراد قحط ہے، اصل میں بھوک مسبب ہے اس کا سبب قحط ہے لہٰذا اس کی تفسیر قحط سے کی کہ بارش نہیں ہو گی تو غلہ کم ہو جائے گا۔ اور روٹی نہیں ملے ------------------------------