خزائن القرآن |
|
اگر بغیر دیکھے کسی چیز کا تسلیم کرنا خلافِ عقل ہے تو دیکھے بغیر جان کے وجود کو بھی تسلیم نہ کرو۔ اسکول کے ایک دہریہ استاد نے ایک بچہ سے کہا کہ جس چیز کو ہم دیکھتے ہیں اسی کو تسلیم کرتے ہیں، بغیر دیکھے کسی چیز کے وجود کو ماننا حماقت ہے لہٰذا جو لوگ بغیر دیکھے اللہ کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں، احمق ہیں۔ وہ بچہ کسی اللہ والے کا تھا اس نے کہا: ماسٹر جی! آپ یہ کیا بات کر رہے ہیں۔ اگر آپ کی بات کو میں صحیح مان لوں تو مجھے آپ کو بے عقل کہنا پڑے گا کیوں کہ آپ کی عقل تو مجھے نظر نہیں آتی۔ ماسٹر جی اپنا سا منہ لے کے رہ گئے۔ ایک شخص نے حکیم الامت سے کہا کہ ہم اللہ سے کیسے محبت کریں کیوں کہ اللہ تو نظر نہیں آتا۔ حضرت نے فرمایا کہ تم کو اپنی جان سے محبت ہے یا نہیں؟ اگر کوئی ڈاکو تمہاری جان نکالنے آ جائے تو اس سے لڑو گے یا آسانی سے کہہ دو گے کہ یہ جان حاضر ہے لے جا؟ کہا کہ نہیں صاحب! جان بچانے کے لیے جان لڑا دوں گا۔ فرمایا کہ جان کو کبھی دیکھا بھی ہے؟ کہا:کبھی نہیں دیکھا۔ فرمایا: جیسے بغیر دیکھے جان سے محبت کرتے ہو تو بغیر دیکھے اللہ سے محبت کیوں نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں روح عطا فرما کر ایمان بالغیب کی ایک دلیل خود ہمارے اندر رکھ دی کہ جس طرح اپنی جان پر ایمان بالغیب لاتے ہو اور بغیر دیکھے اپنی جان کو تسلیم کرتے ہو اور اس سے اتنی محبت کرتے ہو کہ جان کی حفاظت میں جان لڑا دیتے ہو، اسی طرح بغیر دیکھے اللہ پر ایمان لانا اور اللہ سے محبت کرنا کیا مشکل ہے۔ ہمارے اندریہ دلیل رکھ کر اللہ تعالیٰ نے ایمان بالغیب کا پرچہ آسان کر دیا اور گنجایشِ انکار باقی نہ رکھی ۔ اکبر الٰہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے ؎ مری ہستی ہے خود شاہد وجودِ ذاتِ باری کی دلیل ایسی ہے یہ جو عمر بھر رد ہو نہیں سکتیآیتِ بالا کی شرح بعنوانِ دِگر میرے مرشدِ اوّل حضرت مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ جب اللہ نے ارواح کو اپنی تجلی دکھائی اور سوال فرمایا اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡکیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو اس میں اپنی شانِ ربوبیت کی تجلی دکھادی اور اپنی محبت کی چوٹ لگا دی۔ وہی چوٹ لگی ہوئی ہے کہ آج اللہ کا نام سن کر کافر کا بھی دل دہل جاتا ہے اور کتنا ہی فاسق ہو مگر اللہ کا نام سن کر وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آہ !جیسے ہم نے کبھی اس نام کو سنا ہے۔ اپنی چوٹ لگا کر ہمیں دنیا میں بھیجا ہے، ان کی محبت ہماری جانوں کا فطری ذوق ہے۔ اسی کو خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎