خزائن القرآن |
|
آیت نمبر ۶ وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ؕاُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ﴿۱۵۷﴾ ؎ ترجمہ: اور (دیکھو) ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوف سے اور فاقہ سے اور مال اور جان اور پھلوں کی کمی سے اور آپ ایسے صابرین کو بشارت سنا دیجیے (جن کی یہ عادت ہے) کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو (مع مال واولاد حقیقتاً)اﷲتعالیٰہی کی ملک ہیں اور ہم سب (دنیا سے) اﷲتعالیٰ ہی کے پاس جانے والے ہیں اوران لوگوں پر (جدا جدا) خاص خاص رحمتیں بھی ان کے پروردگار کی طرف سے ہوں گی اور (سب پر بالاشتراک) عام رحمت بھی ہو گی۔ اور یہ ہی لوگ ہیں جن کی (حقیقت حال تک رسائی ہوگئی)۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اور اس کے مخاطب صحابہ بھی ہیں اور قیامت تک آنے والی اُمتِ مسلمہ بھی۔ تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہتفسیرروح المعانی میں فرماتے ہیں کہ اوّل خطاب تو صحابہ سے ہے وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ میں ضمیر کُمْ حاضر کی ہے، مگر صحابہ کے واسطے سے قیامت تک کے ایمان والوں کو خطاب ہے کہ ہم ضرور ضرور تمہارا امتحان لیں گے وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ کے معنیٰ امتحان لینے کے ہیں جیسا کہ سورۂ ملک میں فرمایا: لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا؎ ------------------------------