خزائن القرآن |
|
فرشتے معصوم ہیں، متقی نہیں اس لیے جبرئیل علیہ السلام کو متقی کہنا جائز نہیں، معصوم کہنا چاہیے، فرشتوں کو ہم معصوم کہتے ہیں متقی نہیں کہہ سکتے کیوں کہ متقی وہ ہے جس کو گناہ کا تقاضا ہو، اس کو روکے، اس کا غم اٹھائے۔ تقویٰ کا نام ہے کَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْھَوٰی کا یعنی نفس کو اس کی بری خواہش سے روکنا اور فرشتوں میں بُری خواہش ہے نہیں لہٰذا فرشتوں کو معصوم کہنا تو جائز ہے لیکن متقی کہنا جائز نہیں ہے کیوں کہ پوری دنیا میں حسن میں اوّل آنے والی لڑکی کو اگر جبرئیل علیہ السلام کی گود میں بھی رکھ دو تو انہیں پتا ہی نہیں چلے گا کہ یہ لوہے کا کھمبا ہے یا ڈنڈا ہے یا لکڑی ہے یا پتھر ہے یا کوئی لڑکی ہے ان کو کوئی بُرا تقاضا ہینہیں ہو گا۔فرشتوں کے بجائے انسان کو شرفِ نبوت عطا ہونے کا سبب فرشتے جانتے ہی نہیں کہ گناہ کیا چیز ہے؟ ان کے اندر صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اس کو سمجھ لیں اسی لیے پیغمبر انسان بھیجا جاتا ہے تاکہ اُمت کے تمام تقاضا ہائے بشریت کو سمجھ سکے۔ فرشتے چوں کہ تقاضائے بشریت کے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے اس لیے اصلاحِ نفوسِ بشریہ کے قابل نہیں ہوتے، ان کو نبی نہیں بنایا جاتا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس لیے بھیجا ہے کہ تمہارے نفس میں تقاضے ہوں تم ان کو روکو اور غم اٹھاؤ تاکہ میدانِ محشر میں پیش کر سکوکہ ہم نے آپ کے لیے بڑے غم اُٹھائے ہیں۔اللہ کا سچا عاشق کون ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اصلی سالک اور اللہ کا سچا عاشق وہی ہے جو اللہ کے راستے کا غم اُٹھانا جانتا ہو اور غم اُٹھانے کی ہمت رکھتا ہو۔ خالی نفل پڑھ لینا، نفلی حج عمرہ کر لینا یہ کمال نہیں ہے۔ کمال یہ ہے کہ زبردست نمکین شکل سامنے آ جائے اور نظر اُٹھاکر نہ دیکھے اور غم اُٹھا لے چاہے کلیجہ منہ کو آ جائے۔ اگر کلیجہ منہ کو آنے کی مشق ہو جائے اور حسینوں سے نظر بچانے کی توفیق ہو جائے تو ان شاء اللہ! اس کو نسبتِ صحابہ حاصل ہو گی۔ ابھی اس کی دلیل پیش کرتا ہوں کیوں کہ علماء موجود ہیں اس لیے قرآن پاک سے دلیل پیش کرتا ہوں اللہتعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحابہ کو میں نے ایمان کا یہ اعلیٰ مقام کس راستہ سے دیا ہے؟ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ ؎ ------------------------------