خزائن القرآن |
|
آیت نمبر۱۰۵ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ؎ ترجمہ: تُو اپنے پروردگار (کے جوارِ رحمت) کی طرف چل اس طرح سے کہ تُو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش پھر( ادھر چل کر) تُو میرے (خاص) بندوں میں شامل ہوجا(کہ یہ بھی نعمتِ روحانی ہے) اور میری جنّت میں داخل ہوجا۔ بندوں کی خوشی کو مقدم کرنے میں بھی رحمت کی ایک جھلک ہے جس کومیں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں جیسےابّا اپنے بچہ کو لڈو دیتا ہے تو کہتا ہے، لے لڈو خوش ہوجا،خوشی منا اور میں بھی تجھ سے خوش ہوں۔ تو ہماری خوشی کو مقدم کر کے اللہ تعالیٰ نے اپنی شفقت کی جھلک دکھائی ہے اور ہماری خوشی کو اس لیے بھی مقدم کیا کہ وہ ہماری طرف سے خوشیوں سے بے نیاز ہیں اور اس پر اللہ نے مجھے دعا کا ایک مضمون عطا فرمایا جس پر میرے بعض احباب کو وجد آ گیا کہ اے اللہ! ہم سے تو تقویٰ کا، آپ سے محبت و وفاداری کا حق ادا نہ ہو سکا، ہم اپنی نالائقیوں سے اپنی بشری کمزوریوں سے آپ کو خوش نہیں کر سکے لیکن آپ اپنی رحمت سے ہمیں خوش کر دیجیے کہ ہم بندے ہیں، آپ تو اللہ ہیں، مالک ہیں، بہت بڑے مالک ہیں، آپ ہماری خوشیوں سے بے نیاز ہیں، ہماری طرف سے خوشی حاصل کرنے کی آپ کو کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ آپ صمدہیں اور صمد کی تفسیر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ اَلْمُسْتَغْنِیْ عَنْ کُلِّ اَحَدٍ وَّ الْمُحْتَاجُ اِلَیْہِ کُلُّ اَحَدٍ ؎ جو سارے عالم سے بے نیازہو اور سارا عالم جس کا محتاج ہو۔ پس آپ ہماری طرف کی خوشیوں سے بے نیاز ہیں اور ہم آپ کی طرف سے خوشیوں کے محتاج ہیں۔ ہم تو اتنے کمزور ہیں کہ اگر کوئی شدید غم آجائے تو ہمارا ہارٹ فیل ہو جائے۔ پس اے اللہ! ہماری نالائقیوں کو نہ دیکھیے، اپنی رحمت سے ہمیں خوش کر دیجیے۔ملاقاتِ دوستاں یعنی ملاقاتِ اہل اللہ کی اہمیت دوستوں کی ملاقات کی قدر بعض صوفیوں کو نہیں ہے۔ بس غلبۂ حال ہے کیوں کہ ذکر میں مزہ آ رہا ------------------------------