خزائن القرآن |
|
الۡاَعۡیُنِ وَ مَا تُخۡفِی الصُّدُوۡرُ میں آنکھوں کی خیانت اور سینے کی خیانت دونوں ہی پر خبردار فرمایا ہے کہ دیکھو جب تم کسی جگہ نا محرم کو دیکھتے ہو یا دل میں گندے خیالات پکاتے ہو تو ہم دونوں ہی سے با خبر ہیں پس ہماری قدرت اور پکڑ سے خبردار ہو جاؤ۔آیت نمبر ۸۰ اَللہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ ؎ ترجمہ: اﷲ اپنی طرف جس کو چاہے کھینچ لیتا ہے اور جو شخص (خدا کی طرف) رجوع کرے اس کو اپنے تک رسائی دے دیتا ہے۔ میں نے جس آیت کی تلاوت کی تھی اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک ایسی صفت ارشاد فرمائی ہے جو اُن گناہ گاروں کے لیے جو گناہوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، نکلنا چاہ رہے ہیں اور نکل نہیں پا رہے زبردست بشارت ہے۔ اگر وہ گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ سے یہ صفت اور یہ خوبی اور یہ خزانہ جس کا اعلان قرآنِ پاک میں فرمایا ہے مانگ لیں تو بہت جلد ان کا کام بن جائے کیوں کہ اگر یہ خزانہ خدائے تعالیٰ کو دینا نہ ہوتا تو اعلان نہ فرماتے۔ دیکھیے جب ابّا چاہتا ہے کہ لڑکوں کو پتا نہ چلے تو بتاتا بھی نہیں ہے لیکن جب بتاتا ہے کہ دیکھو میرے بکس میں آج اتنا روپیہ ہے تو اس کے معنیٰ ہیں کہ بچے مجھ سے مانگیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی اس صفت کا قرآنِ پاک میں اعلان کیا کہ میری ایک خوبی ہے کہ جو شخص گناہوں کی دلدل سے نہ نکل سکتا ہو، رات دن گناہ گاریوالی زندگی میں پھنسا ہوا ہے جانتا ہے کہ میں دیدہ و دانستہ بہت ہی نالائقی میں پھنسا ہوا ہوں کہ نکلنے نہیں پاتا اس کو اللہ تعالیٰ سے یہ کہنا چاہیے کہ اے اللہ! آپ نے قرآنِ پاک میں اپنی ایک صفت بیان فرمائی ہے کہ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اَللہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ مجھے بھی اپنی طرف کھینچ لیجیے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ اِجْتِبَاءٌ جَبْیٌ سے ہے اور جَبْیٌکے معنیٰ جذب کے ہیں یعنی اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف جذب کرتا ہے، اپنا بناتا ہے، نفس و شیطان کی غلامی سے چھڑاتا ہے، ساری کائنات سے چھڑا کر اپنا بناتا ہے۔ اس کو بھی محسوس ہوجاتا ہے کہ کوئی مجھے اپنی طرف کھینچ رہا ہے، مجھے اللہ اپنا بنا رہا ہے، اس کے دل وجان میں اللہ کی محبت بیدار ہو جاتی ہے اور وہ خود بخود ان کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ------------------------------