خزائن القرآن |
|
کسی کی محتاجی نہ ہو یہ بھی حسنہ ہے۔ ۸)آٹھویں تفسیر ہے اَلصِّحَّۃُ وَ الْکِفَایَۃُ صحت ہواور کفایت ہو کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ ۹)نویں تفسیر ہے اَلنُّصْرَۃُ عَلَی الْاَعْدَآءِدشمنوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی مدد آ جائے۔ ۱۰)اور آخری تفسیر سن لو یعنی دسویں صُحْبَۃُ الصّٰلِحِیْنَ؎ یعنی اللہ والوں کی صحبت۔جس کو اللہ تعالیٰ کے پیاروں کی صحبت نصیب ہو اور اللہ توفیق دے اپنے پیاروں کے پاس بیٹھنے کی تو یہ دلیل ہے کہ حق سبحانہٗ وتعالیٰ اس کو اپنا پیارا بنانا چاہتے ہیں۔ جس دیسی آم کو لنگڑے آم کی صحبت نصیب ہو جائے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ ہو گیا کہ اس دیسی آم کو لنگڑا آم بنا دیں گے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کسی کو اہل اللہ کی صحبت نصیب فرمائے تو سمجھ لو یہ بھی اہل اللہ ہونے والا ہے۔آیت نمبر۱۱ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ ؎ ترجمہ: یقیناً اﷲ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔ اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ مضارع سے نازل فرمایا اور مضارع میں دو زمانے ہوتے ہیں: حال اور مستقبل۔ تو ترجمہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم اپنے بندوں کی توبہ کو قبول فرماتے ہیں موجودہ حالت میں بھی اور اگر آیندہ بھی تم سے کوئی خطا ہو جائے گی تو ہم تمہاری توبہ قبول کر کے تمہیں معاف کر دیں گے اور صرف معاف ہی نہیں کریں گے محبوب بھی بنا لیں گے اور تمہیں اپنے دائرۂ محبوبیت سے خارج نہیں ہونے دیں گے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال اور مستقبل دونوں کے تحفظ کی ضمانت دے رہے ہیں کہ توبہ کی برکت سے حا لاً و استقبالاً ہم تم سے پیار کریں گے۔ ہم ایک دفعہ جس سے پیار کرتے ہیں ہمیشہ کے لیے پیار کرتے ہیں، ہم بے وفاؤں سے پیار ہی نہیں کرتے کیوں کہ ہمیں مستقبل کا بھی علم ہے کہ کون آیندہ ہم سے بے وفائی کرے گا اور کون با وفا رہے گا۔ ہم پیار اسی کو کرتے ہیں جو ہمیشہ باوفا رہتا ہے یا ------------------------------