خزائن القرآن |
|
قول نہیں ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما جیسے صحابی کا قول ہے جس کو علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے روح المعانی میں لکھا ہے۔ بتائیے صحابی کا ارشاد کوئی معمولی چیز ہے؟ لہٰذا یہی سمجھنا چاہیے کہ میری مریدی ممنونِ شیخ ہے، شیخ نے ہمیں قبول کر لیا،یہ شیخ کا احسان ہے۔ اسی آیت سے یہ مسئلہ ثابت ہوا۔آیت نمبر ۸۴ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ فِیۡ قُلُوۡبِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ لِیَزۡدَادُوۡۤا اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡ ؎ ترجمہ: وہ خدا ایسا ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں تحمل پیدا کیا ہے تاکہ ان کے پہلے ایمان کے ساتھ ان کا ایمان اور زیادہ ہو۔ آج ایک خاص مضمون کا داعیہ پیدا ہوا کہ میں اس آیت کی تفسیر کردوں اور اس نعمت کو آپ لوگوں سے بیان کر دوں جو نعمت ساری کائنات میں دستیاب نہیں ہے اس لیے کہ یہ آسمان سے عطا ہوتی ہے زمین والوں کی دسترسی وہاں تک نہیں ہے کیوں کہ زمین پر بسنے والوں کی رسائی وہاں تک نہیں ہے جو نعمت میں ابھی پیش کر رہا ہوں اہلِ دنیا پوری کائنات کے اندر ساری کائنات میں چکر مار لیں مگر وہ دستیاب نہیں ہے نہ مل سکتی ہے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس نعمت کو آسمان سے اتارتے ہیں، آسمان سے اُتارنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے جب تک کہ ہم آسمان والے کو راضی نہ کر لیں۔سکینہ کیا ہے اور کہاں نازل ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اللہ وہ ہے جو اپنے عاشقوں کے دل میں سکینہ اُتارتا ہے۔ سکینہ کیا چیز ہے اور سکینہ کی علامت کیا ہے اس کی تفسیر صاحبِ روح المعانی کیا بیان کرتے ہیں جو ان شاء اللہ! عرض کروں گا لیکن سکینہ کا نزول کہاں ہوتا ہے؟ سکینہ کا جہاز کہاں اُترتا ہے؟فِیۡ قُلُوۡبِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مؤمنین کے دل پر! معلوم ہوا کہ سکینہ کا ایئرپورٹ قلبِ مومن ہے۔ ------------------------------