خزائن القرآن |
|
ترجمہ: بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اﷲ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اﷲ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ (مضبوط) کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں (اور) جوکہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیاہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں(بس) سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں، ان کے لیے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور( ان کے لیے) مغفرت ہے اور عزت کی روزی ۔اعمال سے مقصود رضائےحق ہے ان آیات میں ایمانِ کامل کی علامت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ذکر اﷲ سے ان کے قلوب ڈرجائیں اور کلامِ الٰہی سے ان کا ایمان اور زیادہ ہوجائے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اقامتِ نماز اور انفاقِ مال اس کی راہ میں کرتے ہیں، یہ سچے ایمان والے ہیں، ان کے لیے درجے ہیں اپنے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی۔ جنگِ بدر میں جب مالِ غنیمت ہاتھ آیا تو حضراتِ صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کا اجتہادی اختلاف ہوا کہ اس مال کا حق دار کون ہے۔ جو نوجوان آگے لڑ رہے تھے انہوں نے اپنا حق سمجھا اور جو پیچھے پرانے لوگ لڑرہے تھے انہوں نے اپنا حق سمجھا اور جو لوگ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حفاظت پر مقرر تھے انہوں نے اپنا حق سمجھا۔ ان آیات میں یہ بتلا دیا گیا ہے کہ فتح صرف حق تعالیٰ کی طرف سے ہے حتیٰ کہ ملائکہ کا ارسال کرنا بھی صرف بشارت اور اطمینانِ قلب کے لیے تھا: وَ مَا جَعَلَہُ اللہُ اِلَّا بُشۡرٰی وَ لِتَطۡمَئِنَّ بِہٖ قُلُوۡبُکُمۡ ۚ وَ مَا النَّصۡرُ اِلَّا مِنۡ عِنۡدِ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ؎ ترجمہ: اور اﷲ تعالیٰ نے یہ امداد محض اس (حکمت) کے لیے کی کہ (غلبہ کی) بشارت ہواور تاکہ تمہارے دلوں کو ( اضطراب سے) قرار ہو جاوے اور( واقع میں تو) نصرت (اور غلبہ) صرف اﷲ ہی کی طرف سے ہے جو کہ زبردست، حکمت والے ہیں۔ ------------------------------