خزائن القرآن |
|
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پرچہ آؤٹ کر کے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا کہ یہ مصیبت اچانک نہیں ہو گی کیوں کہ ہم تو پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ ان مضامین میں تمہارا امتحان ہوگا۔ مصیبت آنے والی ہو تو آدمی اس کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور پھر بتانے والا اللہ، جہاں تخلف نہیں ہو سکتا، جہاں جھوٹ کا امکان نہیں ہے۔امتحان کا پانچواں پرچہ اور پانچواں امتحان ہے وَ الثَّمَرٰتِ اور کبھی اللہ تعالیٰ پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے۔ اس کی تفسیر بعضوں نے یہ بھی کی ہے کہ اس سے مراد اولا دکا انتقال ہے کہ اولاد ماں باپ کے لیے پھل ہوتے ہیں۔ بہرحال ظاہر تفسیر یہی ہے کہ باغات میں پھل نہیں آئیں گے۔؎مصیبت اور لفظ بشارت کا ربط کیوں صاحب! اگر مصیبتیں، بلائیں اور تکالیف بُری چیز ہیں تو کیا بری چیز پر بھی بشارت دی جاتی ہے؟ آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ اے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)!آپ صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجیے، خوشخبری سنا دیجیے۔ کسی کو تکلیف ہو اور آپ کہیں: مبارک ہو! تو اس کو کس قدر غم ہوگا۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)! اس امتحان میں جب کوئی مبتلا ہو تو آپ بشارت دے دیجیے، کس کو بشارت دیجیے؟ صبر کرنے والوں کو۔ معلوم ہوا کہ مؤمن کے لیے مصیبت اگر بُری چیز ہوتی تویہاں اللہ تعالیٰ لفظ بشارت نازل نہ فرماتے اور بشارت دینے والا ارحم الراحمین ہے اور جس کے ذریعہ بشارت دلا رہے ہیں وہ رحمۃ للعالمین ہے یعنی سب سے بڑے پیارے نے مخلوق میں سب سے بڑے پیارے یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بشارت دلوائی ہے لہٰذا یہ بشارت بھی کتنی پیاری ہے، یہ بشارت دلیل ہے کہ یہ مصیبت زحمت نہیں، رحمت ہے، نعمت ہے اور کوئی عظیم الشان چیز ملنے والی ہے جیسے کوئی کسی سے موٹر سائیکل چھین لے اور مرسڈیز دے دے تو بتائیے کیا یہ مصیبت ہے؟ پس مصیبت مؤمن کے لیے بری چیز نہیں کیوں کہ صبر کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کو مل جاتے ہیں اور ؎ متاعِ جانِ جاناں جان دینے پر بھی سستی ہے پس صبر اتنی بڑی نعمت ہے جس پر معیتِ الٰہیہ کا انعامِ عظیم ملتا ہے۔ ------------------------------