خزائن القرآن |
|
نئے گناہ نہیں تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی کیا شان ہے کہ الف لام جنس کا داخل کیا جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا کلام ہے جس میں ایسی بلاغت ہے کہ قیامت تک گناہوں کی جتنی بھی نئی نئی صورتیں ایجاد ہوں گی اور جتنے بھی انواع و اقسام پید اہوں گے یہ الف لام سب کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡمگر وہ لوگ جن پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہو وہی نفس کے شر سے محفوظ رہیں گے۔ یہ آیت بھی نازل کی تاکہ معلوم ہو کہ ہر وقت یہ رحمت نہیں رہ سکتی اس کے لیے گڑ گڑا کر مانگنا پڑے گا۔ اس آیت میںما کیا ہے؟ یہ ظرفیہ، زمانیہ، مصدریہ ہے تو اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ؎ کا ترجمہ ہوا اَیْ فِیْ وَقْتِ رَحْمَۃِ رَبِّیْ؎ یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت اس وقت تک رہے گی جب تک تم اللہ کی رحمت کے سائے میں رہو گے۔ فِیْ سے ظرفیہ بن گیا اور وقت سے زمانیہ بن گیا اور رَحِمَ ماضی رحمت سے مصدر بن گیا یعنی جب تک اللہ کی رحمت کا سایہ رہے گا اس وقت تک تم بچے رہو گے، اس عنوان سے کیا نصیحت ہوئی کہ کسی شخص کو یہ ناز نہیں ہونا چاہیے، اس لیے مَنْ نازل نہیں فرمایا جس کا ترجمہ ہوتا کہ ’’مگر وہ لوگ‘‘ یعنی جن لوگوں پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے وہ گناہوں سے بچتے ہیں، مَنْ نازل نہیں کیا،’’مَا ‘‘نازل کیا، جس کا ترجمہ ہوا کہ جب اللہ کی رحمت نازل ہو اسی وقت لوگ گناہوں سے بچ سکتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وقت بدلتا رہتا ہے، کسی وقت رحمت ہوگی کسی وقت نہیں ہوگی اور کسی وقت تمہارے دل کے حالات بدل سکتے ہیں۔نفس کی تعریف اللہ کی رحمت لینے کے لیے نفس کے شر سے حفاظت ضروری ہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ نفس کی تعریف کیا ہے؟ نفس کیا چیز ہے؟ اب نفس کی چارتعریفیں بیان کرتا ہوں: ۱) اَلنَّفْسُ کُلُّھَا ظُلْمَۃٌ وَّسِرَاجُھَاالتَّوْفِیْقُنفس بالکل اندھیرا ہے اور اس کا چراغ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے۔ یہ تعریف علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے کیہے۔ ۲)نفس کی دوسری تعریف ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں اَلْجَسَدُکَثِیْفٌ وَّالرُّوْحُ لَطِیْفٌ وَّالنَّفْسُ بَیْنَھُمَا مُتَوَسِّطَۃٌ؎نفس نہ کثیف ہے نہ لطیف ہے، اگر نیک عمل کرتے رہو تو ------------------------------