خزائن القرآن |
|
لائے اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں یعنی معاصی سے پرہیز کرتے ہیں یعنی ایمان اور تقویٰ سے اللہ کا قرب عطا ہوتا ہے اور خوف اور حزن سے ان کے محفوظ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی من جانب اللہ خوف اور حزن سے بچنے کی خوشخبری ہے لَہُمُ الۡبُشۡرٰی فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ؎حضرت تھانویرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان آیات سے معلوم ہوا کہ بزرگی اور ولایت کا مدار ایمان اور تقویٰ پر ہے نہ کہ کشف و کرامت پر۔ ملا علیقاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںاَ لْاِسْتِقَامَۃُ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ کَرَامَۃٍ؎استقامت ایک ہزار کرامات سے افضل ہے۔آیت نمبر ۱۳ وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰىنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ ؎ ترجمہ: اور درگزر کیجیے ہم سے اور بخش دیجیے ہم کو اور رحم کیجیے ہم پر آپ ہمارے کار ساز ہیں (اور کار ساز طرف دار ہوتا ہے) سو آپ ہم کو کافر لوگوں پر غالب کیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے گناہ گاروں کے لیے ایک ایسی سواری بھیجی ہے جو عجیب و غریب ہے، اللہ تعالیٰ اپنے ایسے گناہ گار بندوں کے لیے جو اپنے گناہوں کی وجہ سے بہت دور جا پڑے ہیں اور اس مایوسی کے قریب جا پہنچے ہیں جس کے سبب مساجد میں جانا اور نیک عمل کرنا بھی چھوڑ دیا ہے، شیطان نے انہیں اللہ سے مایوس کر کے غفلت میں دور پھینک دیا ہے کہ اب وہ یہی سمجھتے ہیں کہ میری مغفرت کیا ہو گی لیکن وہ اگر توبہ کی سواری میں بیٹھ جائیں تو ایک لمحہ میں ان کی دوری حضور ی سے تبدیل ہو جائے اور وہ اللہ کے پیارے ہو جائیں۔ اب میں آیتِ کریمہ کی تفسیر عرض کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے معافی کا سرکاری مضمون نازل کیا ہے۔ یہ بتائیے کہ اگر کسی مجرم کو وقت کا بادشاہ یا وزیر اعظم یہ کہہ دے کہ اس قسم کا مضمون معافی نامہ کا لکھ کر دے ------------------------------