خزائن القرآن |
|
شرح آیتِ بالا بعنوانِ دِگر تقویٰ پر فجور کے تقدم کا سبب ایک عالم نے سوال کیا کہ فَاَلْہَمَھَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا میں فجور کو تقویٰ پر کیوں مقدم کیا گیا جب کہ فجور شر ہے تقویٰ خیر ہے تو عقلاً تقویٰ کا تقدم ضروری تھا۔حق تعالیٰ نے دل میں یہ جواب عطا فرمایا کہ تقویٰ کا حاصل کَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْہَوٰی ہے جس کی دلیل وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی ہے اور ہر نہی اپنے منہی عنہ کے ثبوت کو چاہتا ہے، جیسے میں کہوں کہ اس عینک کو مت دیکھو تو عینک کا وجود ضروری ہے، ورنہ نہ دیکھنے کا حکم لغو ہوگا کیوں کہ جب عینک ہے ہی نہیں تو کس چیز کو نہ دیکھنے کو کہا جارہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی؎ دنیا میں جو اپنے رب کے سامنے حساب کے لیے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو حرام خواہش سے روکا۔اس آیت سے خوف کا معیار اور خوفِ مطلوب کی تشریح بھی ہوگئی کہ بس صرف اتنا خوف مطلوب ہے جو ہَوٰی یعنی گناہ سے بچالے اور اسی کا خوف معتبر ہے جو اپنے نفس کو گناہ سے روک لے اور نفس کو گناہ سے روکنے کا نام ہی تقویٰ ہے پس آیت فَاَلْہَمَھَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا میں فجور کو تقویٰ پر اسی لیے مقدم کیا کہ مادۂ فجور ہی تقویٰ کا موقوف علیہ ہے کہ مادۂ فجور کو دبانے سے ہی تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ پس جب فجوراور ہَوٰی کا وجود نہ ہوگا تو نفس کو کس چیز سے روکا جائے گا اور پھر تقویٰ کا ثبوت کیسے ہوگا۔ پس تقویٰ تقاضائے معصیت کے مقابلے میں دفاعی طاقت کا نام ہے اور جب تقاضائے معصیت یعنی مادۂ فجور نہ ہوگا تو مقابلہ کس چیز کا کیا جائے گا؟ پس واضح ہوا کہ فجور کے مادہ کا تقدم ضروری تھا تاکہ اس کے روکنے پر تقویٰ کا تحقق ہوسکے۔ یہ نقلی دلیل ہے۔ اور عقلی دلیل یہ ہے کہ جب فجور کی قدرت دی گئی تو اس کے ساتھ تقویٰ کی قدرت بھی لازم ہے کہ قدرت ضدین سے متعلق ہوتی ہے۔ اور اس آیتِ پاک میں فجور کو مقدم فرمایا کہ یہ تقویٰ کا موقوف علیہ ------------------------------