خزائن القرآن |
|
نورضایع ہوگیا۔لہٰذا ذکر کے ساتھ تقویٰ کا اہتمام بھی ضروری ہے۔نزولِ سکینہ کی دوسری علامت وَیَثْبُتُ بِہِ التَّوَجُّہُ اِلَی الْحَقِّ اس نور کی خاصیت یہ ہے کہ جس دل پر اللہ تعالیٰ سکینہ اُتارتا ہے ہر لمحۂحیات، ہرسانس وہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے، ایک سانس کو بھی اگر غافل ہونا چاہے تو نہیں ہو سکتا ؎ بھلاتا ہوں پھر بھی وہ یاد آرہے ہیں وَیَثْبُتُ بِہِ التَّوَجُّہُ اِلَی الْحَقِّ،بِہٖکی ضمیر نور کی طرف جا رہی ہے یعنی بِبَرَکَۃِ ھٰذَا النُّوْرِ اس نور کی برکت سے ہروقت اس کی توجہ حق تعالیٰ کی طرف قائم رہتی ہے اور ثبوت کے معنیٰ کیا ہے ثُبُوْتُ الشَّیْءِ بَعْدَ تَحَرُّکِہٖ متحرک چیز میں سکون پیدا ہو جائے اس کا نام ثبوت ہے۔ وَیَثْبُتُ بِہِ التَّوَجُّہُ اِلَی الْحَقِّ حق تعالیٰ کی طرف اس کی توجہ ہر وقت رہتی ہے۔ ایک لمحہ بھی اپنے اللہ سے غافل نہیں ہوتا۔ یہی وہ مقام ہے جس کو نسبت کہا جاتا ہے۔ جب نسبت قائم ہوگئی تو اب خدا کو نہیں بھو ل سکتا۔ اب بھاگنا بھی چاہے تو نہیں بھاگ سکتا۔ نسبت پر حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا عجیب شعر ہے۔ کیسے معلوم ہو کہ یہ شخص ولی اللہ، صاحبِ نسبت ہوچکا ہے۔ فرماتے ہیں ؎ نسبت اسی کا نام ہے نسبت اسی کا نام ان کی گلی سے آپ نکلنے نہ پائیے سمجھ لو وہ شخص صاحبِ نسبت ہوگیا کہ جو بھاگنا بھی چاہے تو اللہ سے نہ بھاگ سکے، ان کو بھلانا بھی چاہے تو بھلا نہ سکے، اس پر قادر ہی نہ ہو کہ ایک سانس اللہ کے بغیر جی سکے۔تیسری علامت یَتَخَلَّصُ عَنِ الطَّیْش؎ یعنی ایسے شخص کو بے سکونی اور پریشانی سے نجات مل جاتی ہے۔ دل ایک دم ٹھنڈا رہتا ہے جب کوئی پریشانی آئی دو رکعات پڑھیں اللہ میاں سے رولیا اور مطمئن ہوگیا۔ اب لِیَزۡدَادُوۡۤا اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡ کی تفسیر کرتا ہوں۔ نزولِ سکینہ ازدیادِ ایمان یعنی نسبتِ خاصہ ------------------------------