خزائن القرآن |
|
قافلۂ جنّت والا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ اس کی علامت بیان فرما رہے ہیں وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی جو اپنے رب کے سامنے حساب کے لیے کھڑے ہونے سے ڈرے کہ اللہ تعالیٰ پوچھیں گے تو کیا جواب دوں گا اور نفس کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے تمام تقاضوں سے روکے یعنی اپنا دل توڑ دے، اللہ پاک کے قانون کو نہ توڑے لہٰذا جب آپ کے دل میں کوئی خواہش پیدا ہو تو اپنے دل ہی سے پوچھو، میں آپ ہی کو مفتی بنا رہا ہوں کہ اپنے دل سے پوچھو کہ اگر یہ خواہش ہم پوری کرلیں تو ہمارا دل تو خوش ہوجائے گا لیکن اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوگا یا نہیں؟ جب آپ کا دل کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ تو ناخوش ہوجائے گا تو آپ دل کو توڑ دیں۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کو نہ توڑیں، جو عظمتِ الٰہیہ کا احترام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی اسے دنیا میں اور آخرت میں معظم، معزز اور مکرم کرتے ہیں اور جو اپنے دل کی حرام خوشیوں کو نہیں توڑتا اور اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑ کر اپنا دل خوش کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کو توڑ دیتا ہے دنیا میں بھی آخرت میں بھی۔اللہ تعالیٰ کے خوف کی علامت اور مقدار تو جنّت کے قافلے کی علامت اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی جو اپنے رب کو حساب دینے سے خوف کرے کہ میں اللہ تعالیٰ کو کیا منہ دکھاؤں گا، اللہ تعالیٰ کو کیا حساب دوں گا اور اللہ تعالیٰ کے خوف کی علامت کیا ہے؟ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتاہو۔ بس اتنا خوف ہو کہ گناہ سے رُک جائے، اپنے نفس کی ان خوشیوں کو جو مرضئ الٰہی کے خلاف ہوں توڑ دینے کی توفیق ہو جائے۔ اس سے زیادہ خوف مطلوب نہیں ہے کہ ہر وقت خوفِ الٰہی سے کانپتارہے اور بیوی بچوں کا حق ادا نہ کر سکے اوردُکان پر بھی نہ جا سکے اور چار پائی پر لیٹا ہوا کانپ رہا ہے کہ خوف ِ الٰہی سے تڑپ رہا ہوں۔ اتنا خوف فرض تو درکنار جائز ہی نہیں ہے۔ اس لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اَللّٰھُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیَتِکَ مَا تَحُوْلُ بِہٖ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ مَعَاصِیْکَ ؎ جو لوگ عربی قواعد سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہاں مِنْ تبعیضیہ ہے مِنْ خَشْیَتِکَ یعنی اے اللہ! میں آپ کے خوف میں سے کچھ حصہ مانگتا ہوں، اتنا خوف مانگتا ہوں جو میرے اور آپ کے معاصی کے درمیان ------------------------------