خزائن القرآن |
|
سے مراد یہی ہے کہ ہم ہر طرح سے اللہ تعالیٰ کی ملک ہیں اور مالک کو ہم پر ہر طرح کے تصرف کا حق حاصل ہے اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ اور یہ جدائی عارضی ہے، ہم لوگ بھی وہیں جانے والے ہیں۔ یہ دو جملے ہیں ان سے بڑھ کر کائنات میں صبر کا کوئی کلمہ نہیں ہوسکتا۔ مصیبت میں اس کلمہ سے زیادہ مفید و لاجواب موتی کا کوئی مُفرح خمیرہ نہیں پیش کر سکتا۔پہلی بشارت …رحمتِ خاصّہ صابرین کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بشارت دی جارہی ہے وہ کیا ہے؟ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ صَلَوٰتٌجمع ہے صَلٰوۃْ کی،معنیٰ خاص خاص رحمتیں یعنی اللہ تعالیٰ کی صبر کرنے والوں پر خاص خاص رحمتیںیعنی اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں پر خاص خاص رحمتیں نازل فرمائے گا لیکن آگے وَرَحْمَۃٌ نازل فرما کر بتا دیا کہ میں رحمتِ عامہ سے بھی اپنے صبر کرنے والے بندوں کو محروم نہیں کروں گا ،یہ تعمیم بعدالتخصیص ہے کہ صابرین پر خاص خاص رحمتیں تو اللہ تعالیٰ برسائے گا ہی، مگر رحمتِ عامہ بھی دے گا یعنی رحمتِ خاصہ کے آبشار کے تسلسل کے ساتھ رحمتِ عامہ بھی ملے گی، پے در پے صلوات اور رحمت پہ رحمت نازل ہو گی۔ یہ تفسیر بیان القرآن ہے جو پیش کررہا ہوں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ صلوات سے مراد خاص خاص رحمتیں ہیں۔دوسری بشارت …رحمتِ عامہ اور جو بعد میں وَرَحْمَۃٌ ہے یہ تعمیم بعد التخصیص ہے یعنی رحمتِ عامہ مراد ہے اور اس کی وجہ حضرت نے عجیب بیان فرمائی کہ چوں کہ حکم صبر پر عمل کرنے میں تمام صابرین مشترک ہیں اس لیے اس کا بدلہ رحمتِ عام ہے لیکن چوں کہ ہر صابر کے صبر کی کیفیت و خصوصیت و کمیت جدا ہے لہٰذا ان خصوصیات کا صلہ بھی جُداجُدا خاص عنایتوں سے ہو گا۔ جتنا جس کا صبر ہو گا اتنی ہی عنایتِ خاصہ اس پرمبذول ہو گی اور یہ نزولِ رحمت تمہارے رب کی طرف سے بدونِ واسطۂ ملائکہ ہوگا یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست رحمتیں نازل ہوں گی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ فرمایا کہ تمہارا رب براہِ راست تم پر رحمت نازل کرے گا۔ دیکھو کوئی دوست کسی کو براہِ راست کوئی چیز دے اور خود نہ دے بلکہ کسی کے ذریعہ سے دے تو فرق ہے یا نہیں؟ تو مِّنۡ رَّبِّہِمۡ سے اللہ تعالیٰ نے مزہ بڑھا دیا اور صبر کو میٹھا کر دیا کہ تمہارے رب کی طرف سے بدونِ واسطۂ ملائکہ رحمتِ خاصہ بھی ملے گی اور رحمتِ عامہ بھی۔