خزائن القرآن |
|
ہونے کے باوجود خوش و خرم کیوں نظر آتے ہیں تو درحقیقت ان کی یہ خوشی ہماری ظاہری آنکھوں سے معلوم ہوتی ہے، ان کے دلوں کو اگر ٹٹولا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ہرگز مطمئن اور چین سے نہیں ہیں۔ نیز یہ کہ فسق و فجور کی گندگی سے ان کے دل بیمار ہوتے ہیں قلبِ سلیم کی غذا صرف ذکرِ حق ہے، بیمار قلب کا تو احساس بھی غلط ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ہم آپ اگر پائخانہ کا ٹوکرا دیکھ لیں یا سونگھ لیں تو فوراً متلی قے بلکہ بے ہوشی تک لاحق ہونے کا امکان ہوتا ہے لیکن بھنگی رات دن پائخانہ کے پاس رہتا ہے اس کے باوجود اس کی بد بو سے اس کے احساس کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ اس بھنگی کا احساسِ سلیم پاخانہ کی گندگی سے رفتہ رفتہ زائل ہو گیا۔ اب آپ چاہیں تو تجربہ کے طور پر اس امر کو آزما لیں کہ دنیائے مردار کی لذّات میں رات دن غرق رہنے والے کسی انسان کو چند دن کے لیے کسی اللہ والے کی صحبت میں رکھیں اور یہ شخص حق تعالیٰ کی یاد میں لگ جائے پس رفتہ رفتہ اس کا وہ سابق فطری اور طبعی مذاق اس کے قلب میں بیدار ہونا شروع ہو جائے گا اور ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ ایک دن ضرور ایسا آئے گا کہ اسی شخص کو اب ذکر چھوڑ کر مشاغلِ دنیوی میں لگنا بہت مشکل اور دو بھر ہوجائے گا اب اس کے شب و روز غفلت میں نہیں گزر سکتے۔ شب و روز کیا معنیٰ ایک لمحہ اور ایک سانس غفلت میں گزارنا اس کو موت سے بدتر نظر آئے گا۔ ہر وقت ایک کیفیتِ حضوری اس کے قلب کو میسر ہو گی گویا دل ہر وقت اللہ کو دیکھ رہا ہے اس کر و فرِ قرب کے سامنے بھلا پھر دنیائے فانی کی لذّتوں کی طرف اس کا قلب کب رجوع کر سکتا ہے؟ اس وقت اس کو تمام مجموعۂ لذّاتِ کائنات مردار نظر آئے گا اور اللہ کی یاد کی برکت سے ایسی سلطنت قلب کو ملے گی کہ اس کے سامنے سلطنتِ ہفت اقلیم ہیچ نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سلاطین کو جب ذکر کا مزہ مل گیا تو آدھی رات کو چپکے سے گدڑی اوڑھی اور جنگل کو نکل گئے۔عظیم الشان ذکر استغفار کرنا، اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا، معافی مانگنا بہت بڑا ذکر ہے۔ جو اپنے مالک کو راضی کر لے وہ اصلی ذاکر ہے اس لیے میں نے یہ آیات تلاوت کی کہ اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ اگر توبہ کر کے مالک کو خوش کر لو، معافی مانگ لو تو تمہارے قلب کو چین آئے گا کیوں کہ ذکر سے دل کے چین کا واسطہ اور رابطہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا ضابطہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہارے سینے میں دل ہم نے بنایا ہے۔ لہٰذا اس دل کو چین صرف ہماری یاد ہی سے ملے گا اور نافرمانی اور گناہ سے تم بے چین اور پریشان رہوگے۔ بے چینی کا سبب گناہ