خزائن القرآن |
|
انبیاء علیہم السلام کی توبہ سے کیا مراد ہے؟ یہاں پر علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اِشکال قائم کیا کہ پیغمبر سے تو گناہ کا ارتکاب نہیں ہو سکتا کیوں کہ نبی تو معصوم ہوتا ہے پھر یہاں دونوں پیغمبر کیوں توفیقِ توبہ مانگ رہے ہیں۔ اس کا جواب یہ دیا کہ عوام کی توبہ اور ہے خواص کی توبہ اور ہے اور یہاں نہ عوام کی تو بہ مراد ہے نہ خواص کی بلکہ یہ اخص الخواص کی توبہ ہے یعنی عام مسلمانوں کی توبہ ہوتی ہے گناہوں سے اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْمَعْصِیَۃِ اِلَی الطَّاعَۃِ اور خواص امت کی توبہ ہوتی ہے غفلت سے اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْغَفْلَۃِ اِلَی الذِّکْرِ۔؎ اور یہ توبہ اخصُّ الخوّاص کی ہے یعنی پیغمبروں کی توبہ ہے جس کا ترجمہ ہو گا اور ہمیں توفیقِ توبہ دیجیے لِرَفْعِ الدَّرَجَاتِ وَ التَّرَقِّیْ فِی الْمَقَامَاتِ یعنی ہم قرب کے جس مقام پر اب ہیں اس میں اور ترقی عطا فرمائیے اور ہم دونوں کے درجات اور بلند کر دیجیے ہمارے مقامِ قرب میں اور ترقی دیجیے۔ دیکھیے تفسیر روح المعانی۔ خوب سمجھ لیں کہ یہ توفیقِ توبہ گناہ سے نہیں ہے کیوں کہ نبی معصوم ہوتے ہیں، ان سے گناہ صادر ہی نہیں ہوتے۔ اگر اکابر کی تفاسیر نہ دیکھی جائیں تو آدمی کو اشکال پیدا ہو جائے گا کہ پیغمبر آخر کس بات کی توبہ مانگ رہے ہیں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر روح المعانی میں اتنے بڑے اِشکال کو دو جملوں میں حل کر دیا کہ پیغمبروں کی توبہ لِرَفْعِ الدَّرَجَاتِ وَالتَّرَقِّیْ فِی الْمَقَامَاتِ ہے یعنی رفع درجات اور مقامِ قرب میں ترقی کی درخواست ہے۔؎تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ کے تقدم و تأخر کے دو عجیب نکتے اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ اور بے شک آپ تَوَّابٌ بھی ہیں،رَحِیْمٌ بھی ہیں یعنی آپ توجہ فرمانے والے، مہربانی فرمانے والے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تَوَّابٌ کو پہلے کیوں نازل کیا اور رَحِیْمٌ کو بعد میں کیوں نازل کیا؟ اس کا عجیب نکتہ بیان فرمایا جو قابلِ و جد ہے۔ دوستو! سن لو! پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ اس تقدم و تاخر کا رازیہ ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرماتا ہے اس کو پہلے توفیقِ توبہ دیتا ہے۔ تَوَّابٌ کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے مقدم فرمایا کہ ہم جس پر رحمت نازل کرتے ہیں پہلے اس کو توفیقِ توبہ دیتے ہیں اور توبہ کے ساتھ ہی رحمت نازل فرماتے ہیں۔ توفیقِ توبہ اور نزولِ رحمت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ آگے ------------------------------