خزائن القرآن |
|
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فجور کو مقدم فرمایا تقویٰ پر۔ اس میں ایک بہت بڑا راز ہے۔ اگر یہ راز معلوم ہو جائے تو کسی شخص کو اپنے گناہوں کے تقاضوں سے غم نہ ہو۔ گناہ کا تقاضا آپ کے لیے مضر نہیں ہے اس پر عمل کرنا مضر ہے۔ اگر تقاضا ہی نہ ہوتو آپ متقی ہو ہی نہیں سکتے۔خونِ آرزو، آفتابِ نسبت کا مطلع ہے تقویٰ نام ہے کہ گناہ کا تقاضا ہو، دل چاہے گناہ کرنے کو لیکن دل کو مار لو ،نفس کی خواہش کو پورا نہ کرو۔اپنی غلط آرزوؤں کا خون کر لو تو دل کے تمام آفاق، اُفقِ شرق ، اُفقِ غرب، اُفقِ شمال ، اُفقِ جنوب دل کے چاروں اُفق لال ہوجائیں گے۔ دنیا کا سورج تو ایک افق سے نکلتا ہے یعنی مشرق سے لیکن اللہ والے جب تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اپنی غلط آرزوؤں کا خون کرتے ہیں اور اللہ کے راستے میں غم اٹھاتے ہیں تو دل کے چاروں افق شرق و غرب، شمال و جنوب خونِ آرزو سے لال ہو کر چاروں طرف سے دل میں نسبت مع اللہ کا، تعلق مع اللہ کا، اللہ کی ولایت اور دوستی کا سورج نکلتا ہے اور اگر غلط آرزو کا خون نہیں کیا تو پھر کیا ملے گا اندھیرے پر اندھیرے چڑھتے جائیں گے، غلاظت پر غلاظت چڑھتی جائے گی، بدبو پر بدبو، بدنامی پر بدنامی، خوش نامی نہیں ملے گی۔ کوئی حضرت کہنے والا پھر روئے زمین پر نہیں رہے گا۔ جب خلق کو معلوم ہوجائے گا کہ حضرت جو ہیں یہ بڑے حضرت ہیں۔ محاورہ میں کہتے ہیں کہ یہ بڑے حضرت ہیں، بڑا استاد آدمی ہے، ذرا ان سے ہوشیار رہنا۔ اس سے اکرام کے القاب چھین لیے جاتے ہیں۔ گناہ کی ایک سزا دنیا میں یہ بھی ہے کہ اکرام اور عزت کے القاب چھن جاتے ہیں اور ذلت کے لقب ملتے ہیں۔ آپ بتائیے کہ اس دل کا کیا عالم ہوگا جس کے ہر اُفق سے اللہ کے قرب کا سورج طلوع ہو رہا ہے۔تقدیمِ الہام الفجور علی التقویٰ کا راز اللہ تعالیٰ کا نفس کی قسم کھانا یہ دلیل ہے کہ کوئی بہت بڑا مضمون اللہ تعالیٰ بیان فرمانا چاہتے ہیں۔ ایک بڑے عالم و محدث کے ساتھ میں لاہور سے ریل میں کراچی آ رہا تھا۔ راستے میں انہوں نے نماز فجر کی امامت کی اور یہی سورت تلاوت کی۔ نماز ہی میں یہ خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو کیوں مؤخر فرمایا اور نافرمانی و فجور کے مادّہ کو پہلے کیوں بیان فرمایا۔ میں نے ان عالم سے پوچھا۔ تو ہنس کے فرمایا کہ تم ہی بتاؤ۔