خزائن القرآن |
|
۳)تیسری شکل یہ ہے کہ نہ بندہ کا فائدہ ہو نہ اللہ کا۔ جس کو چاہا کھانسی دے دی، جس کو چاہا بخار دے دیا، کسی کو صدمہ و غم دے دیا، کسی کا ایکسیڈنٹ کرادیا جس میں کوئی فائدہ اور مقصد نہیں تو بے فائدہ کام کرنا، بے مقصد کام کرنا، فضول اور لغو کام کرنا یہ اللہ کی عظمت کے خلاف ہے۔ اللہ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ ۴)اب صرف چوتھی شکل باقی ہے کہ ہر مصیبت اور تکلیف میں سو فیصد مؤمن ہی کا فائدہ ہے۔ قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللہُ لَنَا ۚ ہُوَ مَوۡلٰىنَا میں’’ لام‘‘ نفع کے لیے ہے ورنہ’’علیٰ‘‘ آتا جو ضرر کے لیے آتا ہے۔ تو یہ کہتا ہوں کہ ہر نعمت کو اللہ کی طرف منسوب کرو، ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرو، تشکر کی کیفیت غالب رہے تو تکبر پاس نہیں آئے گا۔ تکبر سے وہی شخص بچ سکتا ہے جس پر تشکر غالب ہو کیوں کہ تشکر سبب قرب ہے، شکر کرنے سے قربِ الٰہی بڑھتا ہے اور تکبر سے بُعد اور دوری ہوتی ہے اور دوری اور حضوری میں تضاد ہے اور اجتماعِ ضدین محال ہے۔آیت نمبر۴۱ اِنَّ اللہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ؎ ترجمہ: بلا شبہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنّت ملے گی۔ ’’مشتری‘‘ میں اشارہ ہے کہ حق تعالیٰ بھی جاذب ہوتے ہیں کیوں کہ اشتری کے لوازم میں جلب المشتری المبیع ہے۔ مراد یہ ہے کہ اے اللہ! آپ تو تمام کھینچنے والوں سے قوی اور غالب ہیں پس ہم کو گناہوں میں مبتلا کرنے کے لیے جو تقاضے اور جو اسباب مثلاً حسنِ مجازی وغیرہ اپنی طرف کھینچ رہے ہیں تو آپ اگر اپنے کرم سے ہم کو اپنی طرف جذب فرمائیں گے تو چوں کہ آپ غالب ہیں سب پر، اس لیے ہم یقیناً آپ ہی کے ہو جائیں گے اور غیروں کا جذب بے اثر ہو جائے گا ؎ ------------------------------