خزائن القرآن |
|
یُزَکِّیۡہِمۡ سے خانقاہوں کے قیام کا ثبوت کعبہ کی تعمیر کے ساتھ دونوں پیغمبر علیہما السّلام یہ دعا بھی فرما رہے ہیں کہ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ اور وہ نبی ایسا ہو جو دلوں کا تزکیہ کرے، ان کو پاک کر دے۔ کیا مطلب کہ اے اللہ! کعبہ تو ہم نے بنا دیا لیکن اگر دلوں کا کعبہ صحیح نہیں ہو گا تو اس کعبہ کی، بیت اللہ کی کوئی قدر نہیں ہو گی۔ آپ کے گھر کی عزت وہی کرے گا جس کا دل صاف ہو گا، جس کے دل میں خدا کا عشق اور محبت ہو گی ۔ دیکھا آپ نے! دونوں نبی کعبہ بنانے کے بعد یہ دعا کیوں کر رہے ہیں؟ کیوں کہ مسلمان کا دل کعبہ ہے۔ پہلے اس کو غیر اللہ سے پاک کرو۔ اسی لیے کلمہ میں پہلے لا الٰہ ہے کہ دل کو لا الٰہ سے خالی کرو پھر الا اللہ کا نور ملے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو ساٹھ بتوں کو کعبہ سے نکال دیا مگر جب تک دل سے غیر اللہ کے بُت نہیں نکلیں گے اس وقت تک یہ دل اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کو، کعبہ کی عظمتوں کو نہیں پہچان سکے گا۔ اس لیے مزکّٰی و مصفیّٰ اور گناہوں سے توبہ کر کے جو متقی بندے حج کرتے ہیں ان کو کعبہ شریف میں کچھ اور نظر آتا ہے، انہیں کعبہ کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اس لیے حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام نے درخواست کی کہ ہماری اولاد میں سے ایسا رسول مبعوث فرمائیے یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو لوگوں کا تزکیہ کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنی اولاد کے لیے دعا کرے کہ اے اللہ! آپ قیامت تک میری اولاد میں ایسے علما ربانی پیدا فرمائیے جو آپ کے دیے ہوئے دین کے باغ کو پانی دیں اور اس کو ہرا بھرا رکھیں، ہمارے مکاتبِ قرآن کو اور ہمارے دار العلوموں کو قائم رکھیں۔ تو یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ سے مکاتبِ قرآن کا ثبوت ہے اور یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ سے مدارسِ علمیہ کے قیام کا ثبوت ہے اور یُزَکِّیۡہِمۡ سے خانقاہوں کے قیام کا ثبوت ہے۔ تزکیہ بھی مقصدِ بعثت نبوت ہے اور نبوت اب ختم ہو چکی لہٰذا یہ کارِ نبوت آپ کے سچے نائبین و وارثین کے ذریعہ قیامت تک جاری رہے گا۔ خانقاہوں میں دلوں کی صفائی ہوتی ہے ،دلوں کو غیر اللہ کے کباڑ خانے اور کچرے سے پاک کیا جاتا ہے، اخلاص پیدا ہوتا ہے۔ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکا تہم نے ایک تبلیغی مرکز کے بہت بڑے اجتماع میں فرمایا کہ مدرسوں سے، تبلیغی جماعتوں سے اعمال کا وجود ملتا ہے اور خانقاہوں سے اعمال کا قبول ملتا ہے۔ اللہ والوں سے اخلاص ملتا ہے جس کی برکت سے اعمال قبول ہوتے ہیں ورنہ اعمال میں رِیا اور دِکھاوا ہوجائے گا۔ اسی لیے مولانا الیاس صاحب رحمۃ اﷲ علیہ جب تبلیغ سے واپس آتے تھے تو اپنے بزرگوں کی خدمت میں جا کر دل کی ٹیوننگ اور صفائی کراتے تھے اور فرماتے تھے کہ مخلوق میں زیادہ خلط ملط سے دل میں