خزائن القرآن |
|
طوافِ بیت الرّب اور طوافِ ربّ البیت اولیاء اللہ کو بیت الرّب سے ربّ البیت مل جاتا ہے۔ اللہ والے بیت اللہ کا، خالی( اللہ کے گھر کا) طواف نہیں کرتے وہ صاحبِ خانہ کا بھی طواف کرتے ہیں۔ ان کو خالی گھر کی زیارت نصیب نہیں ہوتی، بصیرتِ قلب سے صاحبِ خانہ کی بھی زیارت ہوتی ہے۔مسلمان بیت اللہ کو نہیں اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں اسی لیے میرے شیخ نے فرمایا کہ ایک ہندو نے کہا کہ مولوی صاحب! ہم کو پتھر کے بُت پوجنے سے منع کرتے ہو لیکن آپ کا کعبہ شریف جہاں آپ لوگ سجدہ کرتے ہو وہ بھی تو پتھر کا ہے۔ پھر ہم میں اور آپ میں کیا فرق ہے، ہمارے اور تمہارے درمیان کیا فرق ہے؟ میں پتھر کا بت پوجتا ہوں اور تم کعبہ شریف جو پتھر کا ہے وہاں سجدہ کرتے ہو، یہ واقعہ میرے مُرشِدِ اوّل حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا۔ ان مولانا نے ہندو کو جواب دیا ؎ کافر ہے جو سجدہ کرے بت خانہ سمجھ کر سر رکھا ہے ہم نے درِ جانانہ سمجھ کر اگر ہم کعبہ کو سجدہ کریں تو ہم کافر ہو جائیں، ہم نے تو محبوب کی چوکھٹ پر سر رکھا ہے کہ میرے محبوب کا گھر ہے، ہم گھر کو سجدہ نہیں کرتے گھر والے کو سجدہ کرتے ہیں، یہ تو محض سمت ہے، یہ تو ہمارے محبوب نے رُخ بتایا ہے کہ جب کعبہ کی طرف تمہارا رُخ ہوگا تو تمہاری نماز بھی قبول، سجدہ بھی قبول، یہ رُخ اللہ تعالیٰ نے متعین فرمایا ہے۔ بیت اللہ کو سجدہ کرنے کو خدا نے نہیں فرمایا، اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ بیت اللہ جو ہے یہ اللہ ہے۔ فرمایا کہ یہ توہمارا گھر ہے، طواف کرنے کے لیے، حج کے ارکان ادا کرنے کے لیے، اس کو خدا مت سمجھنا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حجرِ اسود کا بوسہ لیا تو آپ رونے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی رونے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر! کیوں روتے ہو؟ عرض کیا کہ جب خدا کا رسول رو رہا ہے تو میں نہ روؤں؟ اور حجرِ اسود کو یمین اللہ فرمایا گیا بطور نشانی کے لیکن حجرِا سود بھی خدا نہیں ہے۔ یاد رکھو! بیت اللہ اور ہے، رب البیت اور ہے، وہ تو رُخ ہے، حکم ہے کہ اس طرف سجدہ کرو، اس طرف نماز پڑھو اور اگر کسی کو جگہ نہیں معلوم کہ کعبہ کس طرف ہے، نہ قبلہ نما پاس ہے، نہ کوئی بتانے والا ہے تو تحری کر لو، دل میں سوچو،