خزائن القرآن |
|
طریقِ سلوک بھی جذب ہی سے طے ہوتا ہے آگے ارشاد ہے:وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں جس کو پہلے جذب نہیں دیتا تو وہ خود کوشش کرے، مجاہدہ کرے، میری طرف انابت و توجہ اختیار کرے کہ اللہ مجھ سے خوش ہو جائے، مجھ کو اللہ مل جائے تو ایسے لوگوں کے لیے بھی اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتے ہیں کہ میں ان کو ہدایت دے دیتا ہوں اور آخر میں ان کو بھی اپنی طرف جذب کر لیتا ہوں بشرطیکہ مخلص بھی ہوں۔ ابلیس مخلص نہ تھا اس لیے اس کو جذب نصیب نہیں ہوا۔ جس کو اللہ تعالیٰ جذب کرتا ہے وہ مردود نہیں ہو سکتا۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابلیس نے کتنی عبادت کی لیکن جذب سے محروم تھا اس لیے مردود ہوا۔ لہٰذا ہم لوگوں پر فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ جو کچھ روزہ نماز ہم کر رہے ہیں آپ اپنی رحمت سے قبول فرما لیجیے اور آپ نے قرآنِ پاک میں جس خزانہ کا اعلان فرمایا کہ میں جس کو چاہتا ہوں اپنی طرف کھینچ لیتا ہوں تو اے میرے ربا! اگر آپ کو یہ خزانہ ہمیں دینا نہ ہوتا تو اس کی آپ ہمیں خبر بھی نہ کرتے۔ جو اللہ کی طرف چلتا ہے، انابت اور توجہ کرتا ہے، اللہ کی تلاش میں محنت و مشقت اُٹھاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو بھی ہدایت دے دیتا ہے۔ تو دو راستے ہو گئے۔ پہلے کا نام جذب ہے اور دوسرے کانام سلوک۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے صفتِ جذب کو مقدم فرمایا کیوں کہ اس میں بندہ مراد ہوتا ہے، مراد کے معنیٰ ہیں جس کا ارادہ کیا جائے اور دوسرے راستہ یعنی راہِ سلوک میں بندہ مرید رہتا ہے بس جس کو حق تعالیٰ صفتِ جذب عطا فرماتے ہیں یعنی اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا مراد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنا بنانے کا ارادہ فرما لیا اور جو مَنْ یُّنِیْبُہے، اللہ کی طرف توجہ کرتا ہے، اللہ کو تلاش کرتا ہے، اللہ کے راستے میں محنت و مشقت اُٹھاتا ہے، بزرگوں کی خدمت میں جاتا ہے، اللہ اللہ کرتا ہے، گناہ سے بچتا ہے، یہ مرید ہے، اللہ کا ارادہ کرنے والا ہے اس کو بھی بعد میں جذب نصیب ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ بغیر جذب کے کوئی اللہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس پر ابتدا ءمیں جذب غالب ہو یعنی جس کو پہلے اللہ تعالیٰ جذب کرے، بعد میں وہ خدا کا راستہ محنت مشقت سے طے کرے اس کا نام مجذوب سالک ہے یعنی اس کو جذب پہلے نصیب ہوا سلوک بعد میں نصیب ہوا اور جو پہلے سلوک شروع کرے، عبادت کی محنت مشقت شروع کرے بعد میں اللہ اس کو جذب کرے، اپنی طرف کھینچ لے اس کا نام سالکِ مجذوب ہے یعنی پہلے یہ اللہ کے راستے میں چلا، محنت مشقت کی، پھر خدائے تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ بہر حال جذب ہو یا سلوک دونوں راستے اللہ تک پہنچتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ بعضوں کو پہلے ہی اللہ تعالیٰ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور بعضوں کو سلوک کی توفیق پہلے ہوتی ہے بعد میں اللہ تعالیٰ ان کو