خزائن القرآن |
|
ہے کہ لَا یَقْعُدُ قَوْمٌ یَّذْکُرُوْنَ اللہَ اِلَّا حَفَّتْھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتی ہے تو فرشتے اس کو گھیر لیتے ہیں۔ اس کا عاشقانہ ترجمہ ہے کہ ذاکرین کی فرشتوں سے ملاقات ہوتی ہے اس طرح خاکی مخلوق کو نوری مخلوق کی مصاحبت نصیب ہوتی ہے اور اس صحبت کی برکت سے فرشتوں کے پاکیزہ اخلاق اور ان کا ذوقِ عبادت ان خاکی بندوں کے قلوب میں منتقل ہونے کی توقع ہے۔ ذکر کا دوسرا انعام ہےغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اس کا عاشقانہ ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنی آغوش میں لے کر ذاکرین کو پیار کر لیتی ہے جس طرح غلبۂ رحمت سے ماں بچہ کو سینہ سے چپکا کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اسے ڈھانپ لیتی ہے، جب اور زیادہ رحمت و شفقت جوش کرتی ہے تو اپنا سر اور گردن بچہ پر رکھ دیتی ہے، جب اور زیادہ پیار آتا ہے تو اپنے دوپٹہ سے اس کو بالکل ڈھانپ کر بچہ کا پیار لیتی ہے اور اس وقت وہ غلبۂ رحمتِ مادر کا مجسمہ ہوتی ہے۔ پس غَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ کے ترجمہ کی تعبیرِ عاشقانہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اہلِ ذکر کو پیار کرتے ہوئے اپنی آغوش میں ڈھانپ لیتی ہے۔ اور تیسرا انعام ہے نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ؎ کہ ان پر سکینہ نازل ہوتا ہے یہ وہی سکینہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ فِیۡ قُلُوۡبِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اور جس کی تفسیر ابھی میں نے آپ سے بیان کی اور یہ کہ سکینہ کیوں نازل کیا۔ فرماتے ہیں لِیَزۡدَادُوۡۤا اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡتاکہ ان کے پہلے ایمان کے ساتھ ان کا ایمان اور زیادہ ہو جائے۔ پس اس آیتِ شریفہ اور حدیثِ مبارکہ کو ملا کر جو ایک علمِ عظیم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا وہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ ذکر پر نزولِ سکینہ منصوص بالحدیث ہے اور سکینہ پر ازدیادِ ایمان منصوص بالقرآن ہے۔ معلوم ہوا کہ ذکر کے لیے سکینہ لازم ہے اور سکینہ کے لیے زیادتِ ایمان لازم ہے۔ پس ذکر اللہ ازدیادِ ایمان، ترقئ ایمان یعنی حصولِ نسبت خاصہ مع اللہ کا ذریعہ ہے۔آیت نمبر ۸۵ یَدُ اللہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ؎ ترجمہ: خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ ------------------------------