خزائن القرآن |
|
حکمِ استغفار کے عاشقانہ رموز اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْسے دو مسئلے ثابت ہوئے۔ ایک تو یہ کہ ہم سے گناہ سر زد ہوں گے جب ہی تو معافی مانگنے کاحکم دے رہے ہیں اور دوسرے یہ کہ اگر معاف نہ کرنا ہوتا تو معافی کا حکم نہ دیتے جس طرح شفیق باپ جب بیٹے سے کہتا ہے کہ معافی مانگو تو اس کا معاف کرنے کا ارادہ ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ مجھ سے معافی مانگو یہ دلیل ہے کہ وہ ہم کو معاف کرنا چاہتے ہیں لہٰذا معافی مانگنے میں دیر نہ کرو۔ میرا ذوق یہ ہے کہ جس نے ایک بار بھی اخلاص سے اللہ کا نام لے لیا اللہ تعالیٰ اس کو جہنم میں نہیں ڈالیں گے۔ ان کا نام بہت بڑا نام ہے جس کے منہ سے ایک بار بھی محبت سے ان کا نام نکل گیا اللہ کی رحمتِ غیر محدود سے بعید ہے کہ اس کو جہنم میں ڈال دیں اور جس کا ایک آنسو اللہ کے لیے نکل گیا وہ کبھی مردود نہیں ہو سکتا، اس کا سُوئے خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وہ آنسو محفوظ ہوجاتا ہے اگر کبھی نفس سے مغلوب ہو کر وہ اللہ سے بھاگ بھی جائے تو اللہ کے علم میں وہ آنسو محفوظ ہوتا ہے۔ اس کو بہانہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کو تلاش کر لیتی ہے کہ یہ کبھی ہمارے لیے رویا تھا، اس کو ہم کیسے ضایع کر دیں۔ یہ معمولی باتیں نہیں ہیں، میرے بزرگوں کی جوتیوں کا صدقہ ہے جن کی برکت سے اللہ تعالیٰ یہ علوم عطا فرماتے ہیں۔آیتِ بالا کی تشریح بعنوانِ دِگر تعمیرِ حال اور تعمیرِ مستقبل کا سامان اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اپنے رب سے مسلسل مغفرت مانگتے رہو۔ یہ مسلسل کا لفظ میں نے کیوں استعمال کیا؟ کیوں کہ اِسْتَغْفِرُوْا امر ہے اور امر بنتا ہے مضارع سے اور مضارع کے اندر تجددِ استمراری کی خاصیت ہوتی ہے یعنی بار بار اس کام کو کیا جائے۔ عربی قواعد (گرامر ) کی رو سے فعلِ مضارع میں دو زمانہ پایا جانا لازم ہے، ایک زمانۂ حال اور دوسر ازمانۂ مستقبل تو معنیٰ یہ ہوئے کہ موجودہ حالت میں بھی ہم سے مغفرت مانگو اور آیندہ بھی مانگتے رہنا لہٰذا یہ آیت دلیل ہے کہ ہم سے خطائیں ہوں گی موجودہ حالت میں بھی اور آیندہ حالت میں بھی لیکن ایسا کریم مالک ہے جس نے اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ کا حکم دے کر ہمارا حال بھی بنا دیا اور مستقبل بھی بنا دیا۔واہ! کیا شان ہے مالک کی کہ تعمیرِ حال اور تعمیرِ مستقبل دونوں کا سامان اس آیت میں اپنے کرم سے