خزائن القرآن |
|
کو ہر مسلمان سے کمتر سمجھتا ہے، دل سے مسلمانوں کا اکرام کرتا ہے۔ اللہ کے عاشقوں کی پہلی علامت یہ ہے کہ ایمان والوں کے ساتھ اپنے نفس کو مٹا دیتے ہیں، مسلمانوں سے مٹ کر ملتے ہیں، دل میں ہر مسلمان سے خود کو کمتر سمجھتے ہیں کہ میں کچھ نہیں ہوں، مؤمنین کا اکرام میرے لیے باعثِ عزت ہے۔بوقتِ مقابلہ اہلِ محبت کی کفّار پر شدت ان کی دوسری صفت کیا ہے؟ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ کافروں پر سخت ہیں، میرے دشمنوں کے سامنے نفس کی فنائیت نہیں دِکھاتے مثلاً ہندوستان سے جنگ ہورہی ہو اور پاکستانی فوجی بارڈر پر ہندوؤں سے کہے کہ اے ہندو بھائیو! نا چیز حقیر فقیر عبدالقدیر آپ سے لڑنے آیا ہے۔ وہاں ایسا کہنا حرام ہے، وہاں اکڑ کر جاؤ۔ بھائی وائی کچھ مت کہو۔ کہہ دو کہ اے کافرو! آج ہم تمہیں کلمہ کی گرمی اور ایمان کی طاقت دکھائیں گے، تم اگر سیر ہو تو ہم سوا سیر ہیں۔ یہ دونوں ملا کر اللہ تعالیٰ نے ایک علامت بیان کی ہے معطوف علیہ معطوف سے جملہ معطوفہ بن کر ایک علامت ہوئی اور دوسری علامت کیا ہے؟اہلِ محبت کی دوسری علامت…یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اللہ تعالیٰ کے راستے میں مجاہدہ کرتے ہیں، تکالیف اُٹھاتے ہیں اور یہ مجاہدہ چار قسم کا ہے جیسا کہ تفسیر روح المعانی میں ہے: (۱)…رضائے حق کی تلاش میں تکلیف اٹھانے والے: اَلَّذِیْنَ اخْتَارُوا الْمَشَقَّۃَ فِی ابْتِغَآءِ مَرْضَاتِنَاجو ہم کو خوش کرنے کے لیے اپنی خوشیوں کو قربان کردیتے ہیں جیسے دل چاہتا ہے کہ اس ٹیڈی کو، حسین لڑکی کو یا حسین لڑکے کو دیکھ لو، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیسے پہچانو گے کہ یہ میرا عاشق ہے؟ میرا عاشق ہے تو میری خوشی کو مقدم کرے گا اپنی خوشی کا خون کر دے گا پھر اس کے دل کے سرخ اُفق پر میں اپنے قرب کا سورج طلوع کرتا ہوں جس کی مستی کے سامنے دنیا بھر کی لیلاؤں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔