خزائن القرآن |
صرف ترجمہ دیکھنا کافی نہیں، ترجمہ کے ساتھ تفسیر دیکھنا بھی ضروری ہے اور تفسیر میں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو علماء سے پوچھنا چاہیے ورنہ آدمی بالکل غلط معنیٰ سمجھتا ہے، مسلمین کے بارے میں وہ سوچے گا کہ نبی تو مسلمان ہوتے ہی ہیں پھر وہ مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ کی دعا کیوں کر رہے ہیں لیکن تفسیر سے معلوم ہوا کہ اس سے مراد اخلاص و اطاعت و فرماں برداری میں ترقی کی طلب ہے۔تمام مناسکِ حج وحی سے بتائے گئے وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا اور ہم کو حج کے احکام بھی بتلا دیجیے کہ حج کس طرح کیا جائے، طواف کس طرح کریں، منیٰ میں کب قیام کیا جائے اور وقوفِ عرفات کا دن اور وقت اور قیامِ مزدلفہ غرض حج کے پورے احکام اور طریقے ہمیں بتادیجیے وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا میں تمام احکامِ حج شامل ہیں۔ اس لیے مفسرین لکھتے ہیں کہ آپ حج میں جتنے کام کرتے ہیں یہ کوئی من گھڑت اور خیالی پلاؤ نہیں ہے بلکہ جبرئیل علیہ السلام کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے حج کا پورا طریقہ اور احکام بتائے۔کعبہ شریف زمین کے بالکل وسط میں ہے اور کعبہ شریف جہاں واقع ہے وہ پورے عالم کا وسط ہے۔ آج دنیائے سائنس اور پوری دنیا ئے کفر حیران ہے کہ زمین کے بالکل بیچوں بیچ بالکل وسط میں کعبہ شریف کیسے بنایا گیا جب کہ اُس وقت پیمائش کے آلات نہیں تھے، سائنس کی ترقی نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتا دیا کہ یہاں کعبہ کی بنیاد رکھو جو وسط ہے دنیا کا۔تفسیرتُبۡ عَلَیۡنَا وَ تُبۡ عَلَیۡنَا اور ہم پر توجہ فرمائیے یعنی اپنی توجہ و مہربانی کو ہم پر قائم رکھیے۔ تُبۡ عَلَیۡنَا کی تفسیر علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی ہے اَیْ وَفِّقْنَا لِلتَّوْبَۃِ؎ یعنی ہم کو توفیقِ توبہ دیجیے۔مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی توجہ سے مراد توفیقِ توبہ ہے، جس کو توفیقِ توبہ نہیں ہے وہ اللہ کی رحمت اور مہربانی سے بہت دور ہے، مقامِ بُعد میں مبتلا ہے۔ ------------------------------