خزائن القرآن |
|
قوموں کا ایک جز بن جائیں گے لہٰذا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَمیں کیا مزہ ہے، مانگ مانگ کر یہ مزہ لوٹ لو جیسے کوئی بچہ باپ سے کہے کہ ابو! اگر آپ مجھے معاف نہیں کریں گے اور مجھ پر رحم نہیں کریں گے تو میرا اور ہے کون؟ میں تو بہت خسارہ میں پڑ جاؤں گا۔ لہٰذا کوشش کرو اور جان کی بازی لگا دو کہ کوئی گناہ نہ ہو لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ خطا بر بنائے بشریت ہوگی لہٰذا رَبَّنَا ظَلَمْنَا کی رٹ لگائے رہیے کیوں کہ ہماری ہر سانس مجرم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت غیر محدود ہے اور ہماری طاقتِ اطاعت اور طاقتِ تقویٰ محدود ہے۔ تو محدود طاقتیں غیر محدود کا حق کیسے ادا کر سکتی ہیں اس لیے ہماری ہر سانس رَبَّنَا ظَلَمْنَا کی محتاج ہے۔آیت نمبر۳۰ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی؎ ترجمہ: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا: کیوں نہیں۔ بوقتِ آفرینش اللہ تعالیٰ نے اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ فرماکر ہماری ارواح کو اپنی شانِ ربوبیت کی تجلی دِکھا دی اور ہمارے خمیر میں اپنی محبت کی تخم ریزی فرما دی یعنی ہمارے مضغۂ دل پر اپنی محبت کی چوٹ لگا کر پھر اس دنیا میں بھیجا کہ جاتو رہے ہو لیکن ہمارے بن کے رہنا ؎ کہیں کون و مکاں میں جو نہ رکھی جا سکی اے دل غضب دیکھا وہ چنگاری مری مٹی میں شامل کی یہ اسی چوٹ کا اثر ہے جو آج ہم ان کی محبت میں مست ہیں۔ اللہ کے نام میں جو شیرینی و کیف و مستی ہے دونوں جہاں کی لذّتیں اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ جن کو یہ حلاوتِ ذکر نصیب ہوگئی ان سے پوچھو کہ ان کے نام میں کیسا مزہ ہے۔ اللہ کی محبت میں اگر مزہ نہ ہوتا تو انبیاء علیہم السلام کے سر نہ کٹتے اور سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے: وَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوَدِدْتُّ اَنِّیْ اُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ثُمَّ اُحْیٰی ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیٰی ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیٰی ثُمَّ اُقْتَلُ؎ ------------------------------