خزائن القرآن |
|
سارے عالم کے مسلمان مل جائیں گے۔ معلوم ہوا کہ اہل اللہ کی ملاقات عظیم نعمت ہے اور عند اللہ مطلوب ہے۔آیت نمبر ۱۰۶ وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾ فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ۪ۙ﴿۹﴾وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا ﴿ؕ۱۰﴾؎ ترجمہ: اور قسم ہے (انسان کی) جان کی اور اس ذات کی جس نے اس کو درست بنایا پھر اس کی بدکرداری اور پرہیزگاری (دونوں باتوں) کا اس کو القا کیا،یقیناً وہ مراد کو پہنچا جس نے اس (جان) کو پاک کر لیا اور نامراد ہوا جس نے اس کو (فجور میں) دبا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے قبل کی آیات میں آسمان اور زمین اور بڑی بڑی نشانیوں کی قسم اُٹھانے کے بعد پھر نفس کی قسم اُٹھائی وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاھَا اور قسم ہے نفس کی اور اس ذات کی جس نے اس کو درست بنایا جس نے نفس کے اندر دونوں مادّے رکھ دیے فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا اللہ نے نفس کے اندر گناہ کرنے کے تقاضے اور طاقت بھی پیدا کر دی اور متقی بننے کی صلاحیت بھی اس میں رکھ دی۔ اب انسان کے اختیار میں ہے کہ چاہے وہ نفس کی غلامی کر کے جہنم کا راستہ اختیار کر لے اور چاہے تو ہمت کر کے متقی بن کر اللہ کا ولیبن جائے۔ چاہے تو عبدالرحمٰن بن جائے، چاہے تو عبدالشیطان بن جائے یعنی شیطان کا بندہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے کہ انسان چاہے تقویٰ کا راستہ اختیار کرے اور چاہے فجور کا راستہ اختیار کرے، اسی اختیار پر جزا اور سزا ہے۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو بعد میں کیوں بیان فرمایا فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا نا فرمانی کے مادّے کو پہلے بیان فرمایا جب کہ قاعدہ کے مطابق اچھی چیز پہلے بیان ہونی چاہیے۔ مسجد میں آپ اچھا قدم یعنی داہنا قدم پہلے رکھتے ہیں، کھانا داہنے ہاتھ سے کھاتے ہیں، ہر عمدہ چیز مقدم ہوتی ہے مگر ------------------------------