خزائن القرآن |
|
لیکن یہ تقسیم تفاخر کے لیے نہیں بلکہ اس کا مقصد ہے لِتَعَارَفُوۡا تاکہ تم کو ایک دوسرے کا تعارف حاصل ہو سکے۔ لیکن ہم لوگوں نے بجائے تعارف کے تفاضل اور تفاخر شروع کردیا۔ جو پٹیل ہے وہ کہتا ہے کہ ہمارے مقابلے میں سب گھٹیل ہیں یعنی گھٹیا ہیں، کوئی لمبات ہے کوئی گنگات ہے۔ اس آیت سے یہ مسئلہ نکلا کہ اپنے خاندان پر، اپنی برادری پر، اپنے القاب پر فخر کر نا نادانی ہے جو مقصدِ تعارف کے خلاف ہے۔ اس وقت مجھے بس یہ تھوڑی سی نصیحت کرنی ہے کہ لِتَعَارَفُوۡا کا خیال رکھیے۔ تفاخرو تفاضل جائز نہیں کیوں کہ تفریقِ شعوب و قبائل سے اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے سے تعارف ہو جائے کہ وہ فلاں خاندان سے ہے، وہ فلاں قبیلہ سے ہے۔ خاندان و قبائل سببِ عزت و شرف نہیں ہے، پھر عزت وشرف کس چیز میں ہے؟ آگے ارشاد فرماتے ہیں:اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللہِ اَتۡقٰکُمۡ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز وہ ہے جو زیادہ تقویٰ اختیار کرتا ہے۔ جو جتنا زیادہ متقی ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا ہی زیادہ معزز ہے۔تقویٰ کی تعریف تقویٰ کی تعریف کیا ہے؟ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں ان پر عمل کرنا اور جن باتوں سے ناراض ہوتے ہیں ان سے بچنا۔ امتثالِ او امر اور اجتنابِ عن النواہی کا نام تقویٰ ہے۔ دیکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس بات سے خوش ہوتے ہیں اور سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کس بات سے خوش ہوتے ہیں۔ ایک تو ہماری خوشی ہے اور ایک اللہ اور رسول کی خوشی ہے جو اپنی ناجائز خوشی کو خوشی خوشی چھوڑ دے یعنی وہ اپنی خوشی کو اللہ و رسول کی خوشی پر قربان کردے تو سمجھ لو کہ متقی ہو گیا ، اللہ کا ولی ہو گیا۔آیت نمبر ۹۰ وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ ﴿۱۶﴾ ؎ ترجمہ: اور ہم انسان کے اس قدر قریب ہیں کہ اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ۔ پس جب میرا نفس اور میری روح آپ کے مقابلے میں مجھ سے دور ہیں اور آپ میرے نفس و روح سے بھی نزدیک تر ہیں لہٰذا آپ ہی بخشش و عطا کے اہل ہیں اس لیے میں آپ ہی سے فریاد رسی و دادخواہی ------------------------------