خزائن القرآن |
|
غبار سا آ جاتا ہے جس کی صفائی میں خانقاہوں میں کراتا ہوں۔ جب موٹر زیادہ چلتی ہے تو پھر ٹیوننگ ضروری ہے یا نہیں؟ ورنہ گرد و غبار سے انجن خراب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دل میں رِیا، دِکھاوا اور بڑائی آجاتی ہے جس کی صفائی خانقاہوں میں ہوتی ہے تو خانقاہوں کا ثبوت یُزَکِّیۡہِمۡ سے ہے۔تعلیم اور تزکیہ کے تقدم و تأخر کے اسرارِ عجیبہ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ پہلے پارہ میں تزکیہ مؤخر ہے تعلیمِ کتاب مقدم ہے، اس میں علومِ دینیہ کی عظمت و شرافت کا بیان ہے تاکہ صوفیاء کو علومِ دینیہ سے استغناء نہ ہو اور علمِ شریعت اور طریقت کو مغایر نہ سمجھیں اور پارہ ۴ اور پارہ۲۸ میں تزکیہ کو مقدم فرما کر علمائے دین کو تنبیہ و ہدایت فرما دی کہ تزکیہ کی نعمت سے تغافل نہ کرنا اور حضرت نے اس کی تمثیل یہ بیان فرمائی تھی کہ جہاں تعلیم مقدم ہے وہاں تحلیہ کی شرافت مقصود ہے جیسے عطر کی شیشی صاف کرنے سے مقصود عطر ہے کہ اس شیشی میں عطر ڈالا جائے اور جہاں تزکیہ مقدم ہے وہاں تخلیہ کی اہمیت مقصود ہے کہ گندی شیشی میں عطر کی خوشبو ظاہر نہ ہوگی۔ اس مثال سے علمائے دین اور صوفیائے کرام دونوں کو ہدایت واضح ہو گئی کہ صوفیائے کرام زندگی بھر صرف قلب کی شیشی نہ دھوتے رہیں، علوم کی بھی فکر کریں جو مظروف ہے اور علمائے کرام علومِ دین کے لیے قلب کی شیشی کے تزکیہ و تطہیر کی فکر کریں، اس سے غافل نہ ہوں۔ سبحان اللہ! میرے شیخ کی یہ تقریر جامعِ شریعت و طریقت ہے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لیے فرمایا تھا کہ آپ حاملِ علومِ شریعت اور حاملِ علومِ طریقت ہیں۔تعلیمِ کتاب میں حکمت کی اہمیت اور وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معلّم ایسا ہونا چاہیے جو کتاب بھی پڑھائے اور حکمت بھی بتائے یعنی لوگوں کو خوش فہمی اور فہمِ دین کی تعلیم دے۔ اگر معلّم حکمت نہیں جانتا تو اس کی تعلیمِ کتاب ناقص ہے۔ معطوف علیہ معطوف مل کر یُعَلِّمُہُمْ ہوگا جو کتاب اللہ کو سمجھائے لیکن حکیمانہ انداز سےسمجھائے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ جو صاحبِ حکمت نہیں ہیں ان کی تعلیم ناقص ہے۔ خالی رٹا دینے سے، ترجمہ کرا دینے سے تعلیمِ کتاب کا حق تھوڑی ادا ہوتا ہے۔