خزائن القرآن |
|
مزید شرح آیتِ بالا الہامِ فجور و تقویٰ کی حکمت اور فرماتے ہیں کہ تمہارے امتحان کے لیے میں نے تمہارے نفس کے اندر دونوں مادّے رکھ دیے: فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ہم نے تمہارے نفس میں فجور کا مادّہ بھی رکھ دیا کہ تم گناہ کر سکتے ہو، خوب تقاضا ہوگا اورتقویٰ اور اپنا خوف بھی رکھ دیا۔ لہٰذا جس سائیڈ کو چاہو رگڑ کر اس میں تقویت پیدا کر دو۔ دیا سلائی میں دو سائیڈ ہوتی ہیں لیکن جب تک رگڑ و گے نہیں، جلے گی نہیں لہٰذایہ ظلم نہیں ہے کہ اللہ میاں نے کیوں ہمارے اندر گناہ کا مادّہ رکھ دیا۔ جیب میں دیا سلائی ہوتی ہے تو کیا جیب کو جلا دیتی ہے؟ رگڑ نے سے آگ لگتی ہے ۔ اسی طرح نفس میں ایک طرف فجور ہے ایک طرف تقویٰ ہے، اگر حسینوں سے، نمکینوں سے، عورتوں سے، لڑکوں سے میل جول کروگے تو نافرمانی کے مادہ میں رگڑ لگ جائے گی اور گناہ کی آگ بھڑک جائے گی اور اگر تم اللہ والوں کے پاس رہوگے تو فرماں برداری کے مادہ میں رگڑ لگ جائے گی اور تقویٰ کا نور روشن ہو جائے گا۔تقویٰ کی تعریف کیوں کہ تقویٰ کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ نا فرمانی کا تقاضا ہو اور پھر اس کو روکے اور اس کا غم اُٹھائے اس غم سے پھر تقویٰ کا نور پیدا ہوتا ہے۔ اگر مادّۂ فجور نہ ہو تا تو کَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْھَوٰی نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:وَ نَہَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی جو نفس کی بری خواہش کو روکتا ہے وہ متقی اور جنّتی ہوتا ہے تو جب ھویٰ کو روکنا ہے تو ھویٰ کا وجود ضروری ہو ا، ورنہ اگر ہم کہہ دیں کہ ہمارے ہاتھ میں جو چشمہ ہے اس کو دیکھنا مت اور ہاتھ میں چشمہ نہ ہو تو کلام لغو ہو گیا اور اگر چشمہ ہے تو اب کلام صحیح ہوا۔ معلوم ہوا کہ ہر نہی اپنے منہی عنہ کے وجود کی متقاضی ہے اگر منہی عنہ نہیں ہے تو نہی لغو ہے اور اللہ کا کلام پاک ہے لہٰذا مادّۂ ھویٰ کا ہونا لازم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:وَ نَہَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی جو ہمارے خاص بندے ہیں وہ بُری خواہشات کو روکتے ہیں اور روکنے کا غم اُٹھاتے ہیں کیوں کہ نفس کا مزاج یہی ہے، اس کی غذا گناہ ہے۔