خزائن القرآن |
|
اصل مجرم کا۔ اسی لیے رشوت کا دِلانے والا اتنا ہی مجرم ہے جتنا لینے والا۔ اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کی شانِ محبوبیت کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اتنے پیارے ہیں کہ جن کے راستے کے قید خانے اَحبّہوتے ہیں تو ان کی راہ کے گلستاں کیسے ہوں گے؟ یہ جملہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا تو میری اُردو کی لذت پر ند وہ کے علماء مست ہو گئے اور فرمایا کہ کیا استد لال ہے او ر کیا شیرینی زبان ہے کہ جن کی راہ کے قید خانے محبوب ہی نہیں احب ہیں ان کی راہ کے گلستاں کیسے ہوں گے؟ جن کے راستے کی تلخیاں پیاری ہیں تو ان کی شیرینیاں کیسی ہوں گی؟ جن کی راہ کے غم اور تکالیف اَحبّ ہیں تو ان کے نام کی لذت کا کیا عالم ہو گا؟ کیوں کہ اللہ تعالیٰ بے مثل ہیں تو ان کے نام کی لذت بھی بے مثل ہے جو جنّت میں بھی نہیں ملے گی خاص کر نظر بچانے کے غم پر حلاوتِ ایمانی کا جو وعدہ ہے یہ حلاوتِ ایمانی اس دنیا ہی میں ملتی ہے، یہ جنّت میں بھی نہیں ملے گی کیوں کہ جنّت میں نظر بچانے کا حکم ختم ہو جائے گا، وہاں شریعت نہیں رہے گی، وہاں سب فرشتوں کی طرح پاک ہو جائیں گے تو یہ مزہ دنیا ہی میں اُٹھا لو۔ نظر بچا کر یہ حلوۂ ایمانی لوٹ لو۔ اگر ہم ارادہ کر لیں اور ہمت سے کام لیں کہ گناہ نہیں کرنا اور گناہ نہ کرنے کا غم اُٹھانا ہے اور غم کے اس قید خانے کو دل و جان سے محبوب رکھنا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو ناخوش کر کے حرام خوشیاں قلب میں درآمد نہیں کرنا ہیں، غیر اللہ کی شکل و صورت سے بچنے میں جان کی بازی لگانا ہے تو ان شاء اللہ! بطفیلِ سرورِ عالم سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم آج بھی اللہ تعالیٰ وہ مستی دینے پر قادر ہے کہ غم محسوس ہی نہ ہو گا اور ایسی مستی عطا ہو گی جس کا نشہ کبھی نہیں اُترے گا۔آیت نمبر ۴۶ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ؎ ترجمہ: بے شک نفس (ہر ایک کا) بُری ہی بات بتلاتا ہے بجز اس (نفس)کے جس پر میرا ربّ رحم کرے۔ ------------------------------