خزائن القرآن |
|
اللہ تعالیٰ کے امتحان کا پہلا پرچہ تو اللہ تعالیٰ امتحان سے آگاہ فرما رہے ہیںوَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ ہم تمہیں ضرور ضرور آزمائیں گے اور اس آزمایش اور امتحان کا پہلا پرچہ خوف ہے یعنی خوف میں ہم تمہارا امتحان لیں گے لیکن گھبرانا نہیں یہ پرچہ بھی بہت آسان اور ہلکا ہو گا۔ شییٔ کا استعمال بھی تقلیل کے لیے ہے اور تنوین بھی تقلیل کے لیے اور مِن بھی تبعیضیہ ہے یعنی بہت ہی قلیل خوف سے تمہاری آزمایش ہوگی جو دشمنوں سے یا نزولِ حوادث یا مصائب کی وجہ سے پیش آئے گا۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اَلْمُرَادُ بِالْخَوْفِ خَوْفُ الْعَدُوِّ؎ خوف سے مراددشمن کا خوف ہے۔انبیاء علیہم السلام پر مصائب کی وجہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الۡمُجۡرِمِیۡنَ؎ ہر نبی کے لیے ہم نے دشمن بنایا۔ یہ جعل تکوینی ہے انبیاء کی ترقی درجات و تربیت کے لیے،پس جس کا کوئی دشمن نہ ہو سمجھ لو یہ شخص عَلٰی مَنْھَجِ النُّبُوَّۃِ نہیں ہے ورنہ اس کے بھی دشمن ہوتے اگرچہ اُمتی کا پرچہ نبیوں سے آسان ہوتا ہے کیوں کہ بڑے لوگوں کا امتحان بھی بڑا ہوتا ہے۔ اس لیے سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جتنے مصائب مجھے دیے گئے کسی نبی کو ان مصائب سے نہیں گزارا گیا کیوں کہ آپ سیدالانبیاء تھے لہٰذا ؏ جن کے رُتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے اسی طرح صحابہ کو دشمنوں کا خوف رہتا تھا: بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ ؎ یہاں تک کہ بعض وقت کلیجے منہ کو آ گئے: ------------------------------