خزائن القرآن |
|
مُتَطَھِّرِیْنَ فرمایا جو بابِ تفعل سے ہے جس میں خاصیت تکلف کی ہوتی ہے اور تکلف کے معنی ہیں کہ تکلیف اٹھاکر کسی کام کو کرنا۔ تو مطلب یہ ہوا کہ گناہوں کی نجاستوں سے پاک رہنے میں تم کو تکلیف اُٹھانی پڑے، کلفت پیش آئے تو اس سے دریغ نہ کرنا۔ جی نہیں چاہتا گناہ سے بچنے کو، جی نہیں چاہتا حسینوں سے نظر ہٹانے کو مگر تم میری راہ میں تکلیف اٹھا لو۔ اگر لیلاؤں کو دیکھو گے تو پریشانی آئے گی اور یہ تکلیف راہِ لیلیٰ کی ہوگی لیکن مجھے خوش کرنے کے لیے تکلیف اُٹھاؤ گے تو یہ تکلیف راہِ مولیٰ میں داخل ہو گی۔ اب تم خود فیصلہ کر لو کہ کس کی راہ میں تکلیف اٹھانے میں فائدہ ہے۔ تمہارے مزاج میں اگرچہ گناہ پسندی اور حسینوں کی طرف نظر بازی اور ذوقِ حسن بینی ہے لیکن ان سے بچنے میں تمہاری روح کو تو سکون ملتا ہے مگر تمہارا نفس’’تل‘‘ کے لیے تلملاتا ہے اور’’ بل‘‘ کے لیے بلبلاتا ہے لہٰذا اس کو تلملانے دو اور بلبلانے دو، تکلیف اُٹھاؤ۔ گناہ چھوڑنے میں جو تکلیف ہو گی تمہارے نفس کو ہو گی، روح کو خوشی ہو گی اور تم روح سے زندہ ہو، نفس سے زندہ نہیں ہو۔ تمہاری گناہ کی جفا کاریاں اور بیوفائیاں سب روح کی بدولت ہیں۔ اگر میں تمہاری روح قبض کرلوں تو تم کوئی گناہ نہیں کر سکتے۔ تمہارا سببِ حیات روح ہے تو تم سببِ حیات کی کیوں فکر نہیں کرتے۔ جب تم اللہ کی نا فرمانی سے بچو گے تو کتنی حیات تم پر برس جائیں گی۔محبوبِ الٰہی بنانے والی دعا تو مُتَطَھِّرِیْنَ بابِ تفعل سے نازل ہونے کا یہ علمِ عظیم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا لیکن اس میں ایک علمِ عظیم اور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ تَوَّابِیْنَ اور مُتَطَھِّرِیْنَ کو محبوب رکھتے ہیں تو آپ کی رحمت متقاضی ہوئی کہ وضو کے آخر میں یہ دعا اپنی اُمت کو سکھا دی: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ؎ دیکھیے: جو اسلوب نزولِ قرآنِ پاک کا ہے اسی اسلوب پر یہ دعا سکھائی گئی اور قرآنِ پاک میں جو دو لفظ تَوَّابِیْنَ اور مُتَطَھِّرِیْنَ نازل ہوئے وہ اس دعا میں آگئے۔ اس وقت قرآنِ پاک کی آیت اور ایک حدیث کا ربط پیش کر رہا ہوں اور یہ بھی اللہ کا انعام ہے ورنہ قرآنِ پاک کی آیت کہیں ہے اور حدیث پاک کہیں ہے۔ اگر اللہ کا کرم نہ ہو تو ذہن اس طرف نہیں جاسکتا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسانِ عظیم ہے، شفقت اور رحمت کا اُمّت پر ------------------------------