خزائن القرآن |
|
نفس و شیطان کو مغلوب کرنے کے داؤ پیچ اللہ والوں کے پاس بیٹھنے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی دین کی ایسی بات سنا دیں گے اور ایسا داؤ پیچ سکھا دیں گے کہ نفس کو پٹکنے میں آسانی ہوجائے گی۔ جیسا کہ دنیا کے اکھاڑے میں ہوتا ہے کہ داؤ پیچ جاننے والا دبلا پتلا چالیس کلو کا پہلوان تین من کے پہلوان کو گرا دیتا ہے۔ تو اللہ والے اپنے ملفوظات سے ہمیں نفس و شیطان کو پٹکنے کے داؤ پیچ سکھاتے ہیں جس سے نفس و شیطان غالب نہیں آتے۔اہل اللہ سے مستفید ہونے کی شرطِ اوّلیں لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی باتوں پر عمل کرے اور ان کی رائے کے سامنے اپنی رائے کو فنا کر دے تب یہ مقام نصیب ہو گا کہ جیسے وہ نفس و شیطان کو پٹکتے ہیں آپ بھی پٹکنے لگیں گے اور اس کی مثال وہی ہے کہ جیسے لنگڑے آم میں جو خاصیت ، لذت اور ذائقہ ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ دیسی آم کا صرف اتنا کام ہے کہ لنگڑے آم کے سامنے اپنا خاص ہونا بھول جائے کہ میں بھی کوئی خاص چیز ہوں، اپنے وی آئی پی(VIP) ہونے کا احساس ختم ہو جائے، اپنے کو مٹا کر لنگڑے آم سے مل جائے۔ اسی طرح اللہ والوں کے سامنے اپنی بڑائی، اپنا علم و قابلیت سب ختم کر دو، اپنی ضَرَبَ یَضْرِبُ بھی بھول جاؤ ورنہ ساری زندگی ضارب و مضروب رہوگے۔ کہیں ماروگے کہیں مارے جاؤ گے اور کہیں مَفْعُوْلُ مَا لَمْ یُسَمَّ فَاعِلُہٗ ہو جاؤ گے، پتا بھی نہیں چلے گا کہ کون مار کر چلا گیا۔ کبھی ایسی پٹائی بھی ہوتی ہے کہ پیٹنے والا کوئی نشہ پلا کر بے ہوش کر دیتا ہے اور خوب پٹائی کرتا ہے ۔ صبح کو جب ہوش آتا ہے تو چوٹ کا درد تو محسوس کرتا ہے مگر پیٹنے والے کا پتا نہیں چلتا اس کا نام عربی زبان میں مَفْعُوْلُ مَا لَمْ یُسَمَّ فَاعِلُہٗ ہے یعنی وہ مفعول جس کے فاعل کا پتا نہ چلے جیسے ضُرِبَ زَیْدٌ زید مارا گیا اور مارنے والے کا پتا نہیں۔ ایسے ہی شیطان کی مار ہے کہ شیطان نظر نہیں آتا لیکن بہکاتا ہے اور گناہ کا وسوسہ ڈالتا ہے لہٰذا جو لوگ گناہ کر رہے ہیں وہ سب کے سب شیطان کے مَفْعُوْلُ مَا لَمْ یُسَمَّ فَاعِلُہٗ ہیں کہ ان کی پٹائی ہو رہی ہے اور انہیں خبر بھی نہیں کہ ان کی پٹائی کرنے والا شیطان ہے کیوں کہ وہ سامنے نہیں آتا، دل میں گناہ کا تقاضا پیدا کرتا ہے۔وسوسۂ شیطانی اور وسوسئہ نفسانی کا فرق اس طرح نفس بھی بہکاتا ہے اور وسوسہ ڈالتا ہے لیکن شیطان اور نفس کے وسوسہ میں کیا فرق ہے؟