خزائن القرآن |
|
وَ تَرَکُوۡکَ قَآئِمًا ؎ خطبہ کی حالت میں آپ قائم یعنی کھڑے تھے جب اونٹوں کا قافلہ دیکھ کر گندم لینے کے لیے بعض صحابہ آپ کو چھوڑ کر چلے گئے، معلوم ہوا کہ آپ کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے۔ وَ تَرَکُوۡکَ قَآئِمًا میں قائماً حال ہے اور فعل حال سے مقید ہوتا ہے یعنی اس حالت میں آپ کو چھوڑا کہ آپ کھڑے ہوئے تھے تو ایسے ہی صحابہ کا اِنَّا لِلہِ سننا دلیل ہے کہ آپ نے جہراً پڑھا۔ اور تیسرا موقع جب آپ نے اِنَّا لِلہِ پڑھا۔ ۳)وَعِنْدَ انْطِفَآءِ الْمِصْبَاحِ:اور جب چراغ بجھ جاتا تھا تو بھی آپ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھتے تھے۔ اس زمانے میں جب کبھی بجلی فیل ہو جائے تو اس سنّت کو ادا کر لیا کریں۔ یہ نہیں کہ اب ہمارے پاس چراغ تو نہیں ہے۔ چراغ نہیں ہے تو بجلی تو ہے لہٰذایہ سنّت ادا کرو۔ ایک دفعہ بجلی فیل ہو گئی تو حضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب عارفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ بجلی تو فیل ہو ئی مگر دل میں تجلی تو ہے۔ اور چوتھا موقع جب آپ نے اِنَّا لِلہِ پڑھا وہ یہ ہے : ۴) وَعِنْدَ انْقِطَاعِ الشَّسْعِ :جب چپل کا فیتہ ٹوٹ جائے تب بھی پڑھو اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ۔ یہ چار مثالیں ہیں۔تعریفِ مصیبت بزبانِ نبوت ﷺ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحمت دیکھیے کہ ان چار مثالوں پر عمل کر کے اُمت کو دکھا دیا لیکن پھر آخر میں ایک قاعدۂ کلیہ بھی بتا دیا چوں کہ ہر شفیق اور مہربان استاد چند جزئیات کے بعد ایک کلیہ بیان کر دیتا ہے تاکہ شاگرد اس پر قیاس کر سکے، لہٰذا رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک کلیہ بیان فرما دیا تاکہ قیامت تک آنے والی اُمت اپنی ہر حالت کو اس پر منطبق کر سکے اور قیاس کر سکے کہ اِنَّا لِلہِ پڑھنے کے کیا مواقع ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا آپ نے کلیہ کے طور پر مصیبت کی تفسیر بیان فرما دی کہ: کُلُّ مَا یُؤْذِی الْمُؤْمِنَ فَھُوَ مُصِیْبَۃٌ لَّہٗ وَاَجْرٌ؎ ہر وہ چیز جو مؤمن کو تکلیف پہنچا دے وہ اس کے لیے مصیبت ہے اور اس پر اجر ہے۔ اور ایک بات اور بھی سن لو ------------------------------