خزائن القرآن |
|
بَلۡ طَبَعَ اللہُ عَلَیۡہَا بِکُفۡرِہِمۡ ؎ ہم نے ان کافروں کے دلوں پر جو مہر لگائی ہے اس کا سبب ان کا کفر ہے کہ ان کا ارادہ تا حیات اس طغیان وسرکشی پر قائم رہنے کا ہے۔ لہٰذا یہ مہر اُن کے کفر و سر کشی کا خمیازہ ہے۔ حکیم الامّت مجدد الملّت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اعتراض کرے کہ کافر مثلاً پچاس سال کفر کرتا ہے اور مؤمن پچاس سال ایمان پر رہتا ہے تو عدل کا تقاضا یہ تھا کہ کافر کو پچاس سال دوزخ میں ڈال دیا جاتا اور مؤمن کو پچاس سال کے لیے جنّت دے دی جاتی لیکن کافر کے لیے خُلُوْدْ فِیْ النَّارِ اور مؤمن کے لیے خُلُوْدْ فِی الْجَنَّۃِ کیوں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خلود بوجہ ان کی نیت اور ارادہ کے ہے چوں کہ کافر کا ارادہ یہ ہے کہ اگر قیامت تک زندہ رہوں گا تو کفر پر ہی قائم رہوں گا لہٰذا اس کی اس نیت کی وجہ سےاس کے لیے خُلُوْدْ فِیْ النَّارِہے اور مؤمن کی نیت چوں کہ یہ ہے کہ اگر قیامت تک زندہ رہا تو ایمان پر ہی رہوں گا، اللہ ہی کا ہو کر رہوں گا اس لیے مؤمن کے لیے خُلُوْدْ فِی الْجَنَّۃِ ہے۔آیت نمبر۳ وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ارۡکَعُوۡا مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ؎ ترجمہ: اور قائم کرو تم لوگ نماز کو اور دو زکوٰۃ کو اور عاجزی کرو عاجزی کرنے والوں کے ساتھ۔نماز باجماعت کو رکوع سے تعبیر کرنے کی حکمت ایک حکمت بیان کرتاہوں جو روح المعانی میں علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہے کہ جماعت کا وجوب سارے علماء کے نزدیک اس آیت سے ثابت ہے وَ ارۡکَعُوۡا مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ، مگر ترجمہ اس کا یہ ہے کہ صَلُّوْا مَعَ الْمُصَلِّیْنَ نماز پڑھو نمازیوں کے ساتھ، لیکن جماعت کی پور ی نماز کو اللہ تعالیٰ نے رکوع سے کیوں تعبیر کیا جب کہ رکوع تو نماز کا ایک جز ہے۔ بلاغت میں اس کا نام ------------------------------