خزائن القرآن |
|
ہے اور تم پیچھے پیچھے چلے جا رہے ہو۔ جو شخص نفس سے جہاد نہیں کرتا وہ مجرم ہے، اس سے مؤاخذہ ہو گا کہ تم نے گناہ سے پہلے نفس سے لڑائی کیوں نہیں کی۔ ایک ہے گٹر میں گرنا، ایک ہے اپنے کو گٹر میں گرانا، ایک ہے پھسلنا، ایک ہے پھسلانا، ایک ہے گناہ ہو جانا اور ایک ہے جان بوجھ کر گناہ کرنا، دونوں میں فرق ہے۔نفس کا اژدہا اور اسبابِ معصیت نفس پر اعتماد مت کرو، یہ اپنی فطرت کے اعتبار سے بچھو کے ڈنک اور کتے کی دم کی طرح ہے۔ایک شخص نے دس سال تک کتے کی دم کو نلکی میں ڈال کر رکھا اور تیل بھی لگا دیا کہ گرمی سے سیدھی ہو جائے گی لیکن دس سال کے بعد جب نکالا تو ٹیڑھی ہی تھی۔ یہی حال نفس کا ہے لیکن تقویٰ اس کے بُرے تقاضوں ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ برے تقاضے اللہ نے ہمیں مٹیریل اور اجزاء دیے ہیں تعمیرِ تقویٰ کے لیے۔ جب نفس میں برے تقاضے پیدا ہوں آپ ان سے جہاد کریں یعنی ان پر عمل نہ کریں، اسی کا نام تقویٰ ہے۔ تقویٰ یہ نہیں ہے کہ برائی کا خیال ہی نہ آئے اور ہیجڑا و مخنث ہو جائے، خوب سمجھ لیجیے! اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ کا ترجمہ ہے کہ نفس امارہ بالسّوء ہے یعنی کثیر الامر بالسّوء ہے اور جملۂ اسمیہ سے کیوں بیان فرمایا؟ تاکہ مرتے دم تک تم نفس سے بے خبر نہ رہو، جملۂ اسمیہ دوام پر دلالت کرتا ہے یعنی نفس شہوت کے بُرے بُرے تقاضوں سے پریشان رکھے گا، یہ کش کرتا رہے گا آپ مکش رہیے، اس کشمکش کے لیے اللہ نے دنیا میں بھیجا ہے کہ چند دن کشمکش میں رہو، اس کشمکش سے ایک نور پیدا ہو گا۔کلام اللہ کا اعجازِ بلاغت اس کے بعد سوال ہے کہ بالسوء پر’’ الف لام‘‘ کیوں داخل کیا؟ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ یہ الف لام جنس کا ہے اور جنس وہ کلی ہے جو انواع مختلف الحقائق پرمشتمل ہوتی ہے یعنی گناہوں کی جتنی قسمیں ہیں وہ سب اس الف لام میں داخل ہیں یعنی جس وقت قرآن نازل ہورہا تھا اس وقت بھی گناہوں کی جتنی قسمیں تھیں اور قیامت تک جتنی قسمیں گناہوں کی پیدا ہوں گی وہ سب ’’الف لام‘‘ میں داخل ہیں، یعنی نفس تم کو ہر برائی کا حکم کرتا رہےگا، موجودہ جتنے گناہ ہیں اور آیندہ جو ہوں گے ان سب کا تمہیں تقاضا کرتا رہے گا، یہ’’ الف لام‘‘ جنس کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کی بلاغت دیکھو، کیا شان ہے اس کی! جب قرآن نازل ہو رہا تھا اس وقت ریڈیو، آڈیو کہاں تھے، ویڈیو اور فلمیں نہیں تھیں، سینما نہیں تھے، اتنے نئے