خزائن القرآن |
|
باعثِ سکون ہونے کے بجائے باعثِ ہراس و تباہی ہوجاتا ہے، پس نافرمان انسان کے پاس یہ دنیا سببِ نافرمانی بن جاتی ہے اور اللہ والوں کے پاس یہ دنیا فرماں برداری میں صرف ہوتی ہے اور باعثِ چین و سکون ہوتی ہے۔ تعجب ہے کہ دنیا کا پیدا کرنے والا تو دنیا کو قرآن میں دارالغرور (دھوکے کاگھر) فرمائے اور ہم مخلوق ہو کر اس دھوکا کے گھر سے دل لگائے بیٹھے ہیں۔ حق تعالیٰ نے دنیا کی محبت اور حیاتِ دنیا سے اطمینان اور خوشی کا سبب آخرت پر عدم یقین ارشاد فرمایا ہے ورنہ آخرت کی فکر کے ساتھ تو ذکرِ الٰہی کے سوا کوئی چیز باعثِ اطمینان نہیں ہو سکتی ۔ چوبِ بوسیدہ پر سہارا لگا کر کھڑا ہونا جس طرح حماقت ہے اسی طرح موت کے یقینی آنے کے باوجود دنیا کی لذّتوں کو سہارۂ اطمینان بنانا بھی حماقت ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسی پیاری دعا مانگی کہ اے اللہ! جب اہلِ دنیا کی آنکھیں تو ان کی (فانی) دنیا سے ٹھنڈی کرتا ہے تو ہماری آنکھیں اپنی عبادت سے ٹھنڈی فرما (جس کی لذت غیر فانی ہے)۔دنیوی زندگیدھوکے کا سامان دنیا کی ہر چیز فانی اور آنی جانی ہے، یہاں نہ بہار کو قرار ہے نہ خزاں کو، نہ راحت کو نہ مصیبت کو، نہ غم کو نہ خوشی کو، نہ مال و دولت کو نہ عہدہ و منصب کو، نہ بیوی بچوں کو، نہ دوست احباب کو یعنی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی کسی چیز کو یہاں قرار نہیں۔ سب آنکھیں چرانے والی ہیں، یہاں تک کہ خود انسان کی زندگی اور صحت اس سے بے مروتی اور بے وفائی کا ہر روز اعلان کرتی ہے، قرآن مجید نے دنیوی زندگی کی حیثیت کو بڑے دلنشین انداز میں سمجھایا ہے۔ ارشاد ہے: ترجمہ:خوب جان لو کہ دنیوی زندگی محض کھیل کود اور ظاہری خوشنمائی اورآپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے پر برتری جتلانا ہے، گویا کہ بارش ہے کہ اس کی پیدا وار کاشت کاروں کو اچھی معلوم ہوتی ہے، پھر خشک ہوجاتی ہے، سو تو اسے زرد دیکھتا ہے، پھر وہ چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں عذابِ شدید بھی ہے ، اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی بھی اور دنیوی زندگی محض دھوکے کا سامان (متاع الغرور) ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس عارضی و فانی دنیا کے برعکس عالمِ آخرت باقی و لازوال ہے اور وہاں کی کیفیتیں دو ہیں، دونوں ثابت و باقی، ایک کافروں کے لیے اور وہ عذابِ شدید ہے، دوسری ایمان والوں کے لیے اور وہ