خزائن القرآن |
|
اولیاء اللہ کی صفت ولی سازی حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہفرماتے ہیں کہ جس طرح سورج میں گرمی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور چاند کو ٹھنڈک اللہ نے بخشی ہے اسی طرح اللہ والوں کے اندر اللہ نے ولی سازی کی خاصیت عطا فرمائی ہے یعنی ان کی برکت سے دوسر ے لوگ بھی اللہ کے ولی بنتے ہیں۔ یہ خاصیت ان کو اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ یہ ان کی ذاتی صفت نہیں ہے، جب خود ان کا ولی بننا اللہ کی عطا ہے تو ولی سازی کیسے ان کی ذاتی خاصیت ہو سکتی ہے۔ جس طرح مشہور ہے کہ ؎ آہن کہ بہ پارس آشنا شد فی الفور بصورتِ طلا شد جو لوہا پارس پتھر کے ساتھ مل جائے، متصل ہو جائے،touchہوجائے، چھو جائے تو وہ لوہا فوراً سونا بن جاتا ہے تو پارس پتھر میں لوہے کو سونا بنانے کی جو خاصیت ہے وہ پارس پتھر کی ذاتی نہیں ہے اس کو دی گئی ہے، اسی طرح اللہ والوں کے اندر ولی سازی یعنی ولی اللہ بنانے کی خاصیت اُن کی ذاتی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمائی ہے۔کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ کی ٹیکنالوجی کا طریقِ حصول نباتِ ادنیٰ کو نباتِ اعلیٰ بنانے کی ٹیکنالوجی یعنی دیسی آم کو لنگڑا آم بنانے کی سائنس دانوں کی ایجاد تو اس صدی کی ہے لیکن انسانِ ادنیٰ کو انسانِ اعلیٰ، فاسق اور فاجر کو ولی اللہ اور غافل اور نا فرمان کو حقیقی معنوں میں اشرف المخلوقات بنانے کی ٹیکنالوجی کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ چودہ سو برس پہلے سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر نازل ہوئی اور یہ سائنس دان چوں کہ زمینی ہیں اس لیے ان کی ٹیکنالوجی حیوانات و نباتات تک محدود ہے اور انبیاء علیہم السلام اشرف الناس ہوتے ہیں اس لیے ان کی ٹیکنالوجی اشرف المخلوقات یعنی انسانوں کے لیے ہے۔ لہٰذا کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ کی ٹیکنالوجی کا فیض کس طرح منتقل ہوتا ہے؟ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ والوں کا فیض طالبین اور مریدین میں، ان کے ہمنشینوں اور ساتھ رہنے والوں میں چار طریقے سے منتقل ہوتا ہے۔ یعنی اللہ والوں کے اندر ولایت سازی کی جو خاصیت ہے، ان کو جو اللہ تعالیٰ کی محبت اور دوستی اور تقویٰ کی حیات حاصل ہے وہ چار طریقوں سے منتقل ہوتی ہے۔