خزائن القرآن |
|
رونے لگتے ہیں اور رونے کی اجازت بھی ہے مگر ایسی بات نہ نکالے کہ ہائے میری ماں کیوں مر گئی اور اللہ نے کیوں اٹھا لیا۔’’کیوں‘‘نہ لگاؤ بس یہ کہو کہ اے اللہ! مجھے اپنی ماں کی جدائی کا غم ہے، یہ کہنا بھی سنّت ہے کیوں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بیٹے کا جب انتقال ہوا تو فرمایا اے ابراہیم! تمہاری جدائی سے نبی غمگین ہے۔؎ اور آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے تو معلوم ہوا کہ آنکھوں سے آنسو بہہ جانا بھی سنّت ہے اور اظہارِ غم بھی سنّت ہے کہ مجھے اپنی والدہ کا صدمہ ہے اور یہ کہہ کر اگر آنسو بہہ جائیں تو یہ سنّت کے خلاف نہیں بلکہ رو لینا چاہیے کیوں کہ بعض لوگوں نے بہت ضبط کیا تو ان کو ہمیشہ کے لیے دل کی بیماری لگ گئی پھر کوئی خمیرہ کام نہ آیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر رحمت فرمائی کہ رونے کی اجازت عطا فرما دی کیوں کہ تھوڑا سا رو لینے سے دل کا غم پانی بن کر بہہ جاتا ہے، ایسے وقت میں بعض لوگوں نے سوچا کہ ہم کو نہیں رونا چاہیے یا تو ان کو سنّت کا علم نہیں تھا یا کسی حال کا غلبہ ہو گیا۔ ایک دم آنسوؤں کو ضبط کیا نتیجہ یہ ہوا کہ ہارٹ فیل ہو گیا۔ اس لیے یہ تھوڑا سا رو لینا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو سکھایا خود رو کر۔ اب نبی سے بڑھ کر کون صبر والا ہو سکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ رونا صبر کے خلاف نہیں ورنہ سنّت کیوں ہوتا؟ موت سے آدمی فنا نہیں ہوتا، دنیا سے آخرت میں منتقل ہوتا ہے۔ موت دراصل انتقال ہے، پردیس سے اپنے وطن کی طرف جہاں وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔آیت نمبر۷ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ ؎ ترجمہ: اور جو مؤمن ہیں ان کو (صرف) اﷲ تعالیٰ کے ساتھ نہایت قوی محبت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جملہ خبریہ سے یہ آیت نازل فرمائی وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ مجھ پر ایمان لانے والوں کے دل میں ،میرے ماننے والوں کے دل میں میری محبت تمام محبتوں سے اشد ہے۔ اس آیت کی تفسیر سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ نبوت سے بصورت جملہ انشائیہ یعنی بصورتِ دعا مانگ کر فرمائی جس میں اشد محبت کے حدود اور اشد محبت کا معیار آپ نے اللہ سے مانگا کہ: ------------------------------