خزائن القرآن |
|
آیت نمبر۴۴ اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ لَحَلِیۡمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیۡبٌ؎ ترجمہ: واقعی ابراہیم(علیہ السلام) بڑے حلیم الطبع، رحیم المزاج، رقیق القلب تھے۔تعلّقِ خُلّت (خالص دوستی) کی علامت اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ لَحَلِیۡمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیۡبٌآیت دال بر علامت تعلقِ خلَّت ہے۔ جب رو حِ سالک کو یہ مقام خُلَّت عطا ہو تا ہے تو وہ کثرتِ آہ سے مشرف ہو جاتی ہے ۔ اِنابت کی صفت سے قبل اَوَّاہٌ کو بیان فرما کر بتا دیا کہ اِنابتِ کاملہ کی صفت مخفی اور با طنی ہے پس دوسر ے لو گ کیسے پہچانیں گے ہمارے خلیلوں کو۔ اس لیے پہلے ہی اَوَّاہٌ کی صفت بیان فرما دی کہ آتشِ غم کے تحمل کے لیے وہ بکثرت آہ کیا کر تے ہیں ؎ آہ کو نسبت ہے کچھ عُشاق سے آہ نکلی اور پہچانے گئے یہ آیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور آپ کی خُلَّت بھی منصوص ہے وَ اتَّخَذَ اللہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا؎ اور اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خالص دو ست بنایا تھا ۔اﷲ تعالیٰ کی شانِ محبوبیت کی دلیل کَلَّاۤ اِنَّہُمۡ عَنۡ رَّبِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ لَّمَحۡجُوۡبُوۡنَ؎ یعنی یہ لو گ ( کفّار) اس رو ز اپنے رب کا دیدار کرنے سے روک دیے جائیں گے۔ یہ عنوانِ سزا حق تعالیٰ کی شانِ محبوبیت پر دلالت کر تا ہے۔ بر عکس دنیا کے حُکّام چوں کہ حُکّامِ محض ہوتے ہیں محبوب نہیں ہو تے اس لیے جب سے روئے زمین قائم ہے آج تک کسی سلطان یا حاکم نے مجرمین کو یہ سزا نہیں سنائی ہے کہ تم کو اس جرم کے سبب ہم اپنی صور ت کے دیدار سے ------------------------------