خزائن القرآن |
|
مذکورہ سورۃ کی مزید تشریح اَلْحَمْدُ لِلہِ کی چار تفسیریں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ کے اندر پہلے اپنی عظمتِ شان بیان فرمائی کہ دنیا میں جتنی تعریفیں ہوتی ہیں حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہوتی ہے۔ پس ہر نعمت کو اللہ کی طرف منسوب کرو کہ اللہ نے یہ ہمیں بلا استحقاق محض اپنے کرم سے عطا فرمائی ہے،میں اس کا مستحق نہیں تھا۔ انسان کے کمالات کیا ہیں، سارے کمالات اللہ کے لیے ہیں اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ حمد کی چار تعریفیں ہو سکتی ہیں۔ اب منطق سن لیجیے۔ تعریف کی چار قسمیں ہیں: ۱) بندہ بندے کی تعریف کرے۔۲) بندہ اللہ کی تعریف کرے۔ ۳) اللہ بندے کی تعریف کرے۔ ۴)اللہ خود اپنی تعریف کرے۔ ان چار کے علاوہ کوئی پانچویں قسم نہیں ہے۔ میں دارالعلوم میں اعلان کرتا ہوں کہ اگر کوئی پانچویں قسم ہو تو میرے سامنے پیش کرو۔ میں وہ جاہل پیر نہیں ہوں کہ مرعوب ہوجاؤں۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے الحمد للہ کی تفسیر میں فرمایا تھا کہ تعریف کی جو چار قسمیں ہیں یعنی بندہ اللہ کی تعریف کرے یا اللہ بندے کی تعریف کرے یا بندہ بندے کی تعریف کرے یا اللہ خود اپنی تعریف کرے، تعریف کی یہ چاروں قسمیں سب اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں۔ الحمد للہ میں لام تخصیص کے لیے ہے۔ اور اللہ کو کیسے پہچانو گے؟معرفتِ الٰہیہ کا تعلق ربوبیتِ الٰہیہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی پہچان کا طریقہ آگے بتلا دیا کہ کون ہے؟ رب العالمین ہے۔ اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے خاص ہیں جو رب العالمین ہے، پروردگار ہے تمام عالم کا، ایک ایک ذرّہ گواہی دے رہا ہے کہ میرا کوئی پیدا کرنے والا ہے۔ زمین و آسمان چاند و سورج، سیارے، پہاڑ، دریا اور سمندر اور عالم کی عجیب و غریب مخلوقات حق تعالیٰ کی وحدانیت و ربوبیت پر شہادت دے رہے ہیں حتیٰ کہ درختوں کے پتوں اور پھول کی پنکھڑیوں کے باریک باریک رگ و ریشے سب میں حق تعالیٰ کی ربوبیت کار فرما ہے۔ لہٰذا اَلۡحَمۡدُ لِلہِ کے بعد رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ فرما کر بتا دیا کہ اگر تم ہمیں پہچاننا چاہتے ہو، ہماری معرفت حاصل کرنا چاہتے ہو توہماری صفتِ ربوبیت کو دیکھو کیوں کہ تمام عالم کے ذرّہ ذرّہ میں ہماری ربوبیت کا تم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ