خزائن القرآن |
|
اے انسانو! تم کو زندگی ہم نے اس لیے دی ہے تاکہ ہم تمہیں آزمائیں کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے اور زندگی کے بعد موت دیتا ہوں تاکہ تم واپس آکر مجھے اپنا حساب کتاب پیش کرو۔ابتلاء و امتحان کا مفہوم علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ حقیقتِ ابتلاء و حقیقتِ اختبار کا عام مفہوم تحصیلِ علم ہے کہ جس کا امتحان لیا جائے اس کے بارے میں علم حاصل کیا جائے کہ اس کے اندر کیا قابلیت ہے جیسے مدرسوں کے ممتحن اور مہتمم اسی لیے امتحان لیتے ہیں کیوں کہ ان کو خبر نہیں ہوتی کہ طالب علم میں کتنی قابلیت ہے، اس کو سبق یاد ہے یا نہیں اور یہ پاس ہوگا بھی یا نہیں۔ تو یہاں قابلیت کا علم حاصل کرنے کے لیے امتحان لیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف اس مفہوم کی نسبت کرنا محال ہے کیوں کہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ! اللہ تعالیٰ یہ علم حاصل کرنے کے لیے امتحان لیتے ہیں کہ کون کس درجہ کا صابر اور کس درجہ کا وفادار ہے اور یہ اللہ کے لیے محال ہے کہ وہ اپنے بندوں کی قابلیت سے بے خبر ہو کیوں کہ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ۔ وَھُوَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ وہ لطیف ہے، خبیر ہے ،علیم ہے، ہمارے سینوں کے بھیدوں کو بھی جانتا ہے لہٰذا یہاں امتحان کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کی قابلیتِ صبر جاننے کے لیے امتحان لیتا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے امتحان کی کوئی ضرورت نہیں، وہ بغیر امتحان جانتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے، ہماری طاقتِ دست و بازو سے وہ با خبر ہے۔ لہٰذا یہاں اللہ تعالیٰ کا لفظِ امتحان اور ابتلاء استعمال فرمانا تحصیلِ علم کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کو استعارۂ تمثیلیہ کہتے ہیں جس سے مراد یہ ہے کہ ہم تو اپنے عاشقوں کے مقامات کو جانتے ہی ہیں کہ وہ ہر حال میں صابر اور میرے وفادار رہیں گے۔عاشقانِ خدا کے امتحان کا مقصد لیکن اس امتحان سے سارے عالم کو دِکھانا چاہتے ہیں، سارے عالم میں اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کی تاریخ سازی کرتے ہیں کہ میرے عاشق ایسے باوفا ہوتے ہیں کہ مصائب میں بھی مجھ کو نہیں بھولتے اور نعمتوں میں بھی مجھے فراموش نہیں کرتے۔ لہٰذا یہاں امتحان سے تحصیلِ علم کا مفہوم محال ہے، یہ تو بندوں کے لیے ہے کیوں کہ ہم تو محتاج ہیں، ہم امتحان کے ذریعہ دوسروں کی قابلیت کا علم حاصل کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ امتحان سے بے نیاز ہے۔ وہ بغیر امتحان ہمیں خوب جانتا ہے۔ وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ ضرور ضرور ہم تمہارا امتحان لیں