خزائن القرآن |
|
مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِمیں شانِ عظمت و شانِ رحمتِ الٰہیہ کا ظہور پھرمٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِفرمایا کہ میں مالک ہوں قیامت کے دن کا۔ اس دن میری حیثیت منصف اور جج کی نہیں ہوگی۔ جج قانونِ مملکت کا پابند ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے قانون اور سلطنت اور قوانین کا پابند اور غلام نہیں ہوں۔ میں مالک رہوں گا قیامت کے دن کا۔ اگر میرے قانون سے کوئی بخشا نہ جاسکا تو اپنے شاہی رحم سے معاف کردوں گا یہ ہے مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ کا راز۔ جس کو شاہ عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے نے فرمایا کہ عرشِ اعظم کے سامنے لکھا ہوا ہے:سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ غَضَبِیْ میری رحمت اور میرے غصہ میں جو دوڑ ہوئی تو میری رحمت آگے بڑھ گئی۔ شاہ عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ مصنف تفسیر موضح القرآن اور شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے لکھتے ہیں کہ عرشِ اعظم پر اللہ نے یہ کیوں لکھوایا ہے؟ فرمایا کہ یہ شاہی رحم کے طور پر لکھوایا ہے۔ اس کا نام کیا ہے ؟از قبیل مراحمِ خسروانہ۔ مراحمِ جمع ہے رحمت کی۔ از قبیل مراحم خسروانہ کے معنی ہیں شاہی رحم کے طور پر۔ اگر میرا کوئی بندہ قانون سے نہ بخشا جا سکا تو میں اپنے شاہی رحم کو محفوظ رکھتا ہوں، اس شاہی رحم سے اس کو معاف کر دوں گا جیسے جب کوئی مجرم قانون سے نجات نہیں پاتا اور سپریم کورٹ سے پھانسی کی قطعی سزا ہو جاتی ہے تو اب آ گے کیوں کہ کوئی اور عدالت نہیں ہے لہٰذا سلطانِ مملکت سے رحم کی درخواست کرتا ہے اور اخباروں میں آ جاتا ہے کہ مجرم نے سپریم کورٹ میں ہارنے کے بعد پھانسی کی سزا سن کر اب مملکت کے بادشاہ سے رجوع کیا اور شاہی رحم کی بھیک مانگی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے شاہی رحم کی بھیک کو محفوظ کرلیا۔ آہ! مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ کا راز سن لیجیے۔ وہ مالک ہے قیامت کے دن کا۔ جج قانون کا پابند ہوتا ہے۔ مالک پابند نہیںہوتا۔ اللہ کی قضا اللہ کے سامنے محکوم ہے۔ قضائے الٰہی یعنی اللہ کا فیصلہ اللہ تعالیٰ پر حکومت نہیں کر سکتا۔ یہ مولانا رومی کا عنوان ہے کہ اے خدا! آپ کی قضا آپ کی محکوم ہے، آپ پر حاکم نہیں ہو سکتی اس لیے سوئے قضا کو حسنِ قضا سے تبدیل فرما دیجیے۔نفس و شیطان کی غلامی سے آزادی کی درخواست اور آگے بیان فرمایا کہ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُہم آپ ہی کے بندے ہیں، ہم نفس اور