خزائن القرآن |
|
صبر کی تین قسمیں صبر کے تین معنیٰ ہیں: اَلصَّبْرُ فِی الْمُصِیْبَۃِ مصیبت میں صبر کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کی مرضی پر راضی رہے، دل سے شکایت اور اعتراض نہ کرے۔ حکیم الامّت مجددِملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس طرح نماز فرض ہے، روزہ فرض ہے، حج فرض ہے ،زکوٰۃ فرض ہے ،جہاد فرض ہے اتنا ہی اللہ کی مرضی پرراضی رہنا بھی فرض ہے جس کا نام رضا بالقضا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی رہنا یہ صرف سنّت اور مستحب اور واجب نہیں، بلکہ فرض ہے کہ دل میں اعتراض نہ پیدا ہو اور دل سے شکایت نہ کرے گو آنکھیں اشکبار ہو جائیں۔ اشکبار ہونا اور غم کا اظہار کرنا یہ صبر اور رضا بالقضا کے خلا ف نہیں۔ میرا ایک شعر ہے ؎ حسرت سے میری آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں دل ہے کہ ان کی خاطر تسلیمِ سر کیے ہے بعض نادان کہتے ہیں کہ دیکھو اتنے بڑے عالم ہو کر رو رہے ہیں۔ وہ نادانی سے سمجھتے ہیں کہ رونا خلافِ سنّت ہے۔ حالاں کہ خلافِ سنّت تو کیا ہوتا عین اتباعِ سنّت ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا جب انتقال ہوا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ صحابہ کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دلیلِ رحمت ہے، یہ بےصبری نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ اپنے پیاروں کے انتقال پر رونا خلافِ صبر نہیں۔ لہٰذا جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ گئے اس نے سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنّت ادا کی۔ بعض لوگوں نے ضبط کیا اور نہیں روئے۔ ’’آہ‘‘ بھی نہیں کی تو کیا ہوا کہ برداشت نہ کر سکے اور حرکتِ قلب بند ہو گئی لہٰذا اتباع ِسنّت میں ہماری حیات ہے، ہماری زندگی کی ضمانت ہے۔ اس لیے غم میں کچھ آہ کرلو، کچھ رو لو، کچھ مرنے والے کا تذکرہ بھی کرلو۔ یہ دلیلِ رحمت ہے دلیلِ تعلق ہے اور اس سے دل ہلکا ہو جاتا ہے یہ خلافِ صبر نہیں۔ بے صبری یہ ہے کہ اعتراض کرنے لگے یا زبان سے شکوہ کرے کہ میرے عزیز کو ابھی سے کیوں اُٹھا لیا وغیرہ۔ اَلصَّبْرُ عَلَی الطَّاعَۃِ طاعت پر صبر کرنا، یہ صبر کی دوسری قسم ہے۔یعنی جو نیک اعمال کرتا ہے، دین کا جو کام کرتا ہے جیسے نماز، روزہ، ذکر و تلاوت سب پر قائم رہے، فرماں برداری و طاعت پر قائم رہنا بھی صبر ہے۔